تو زندہ ہے تو زندگی کی جیت پر یقین رکھ ؛ احسن علی


آج سے ایک سو چودہ سال پہلے البرٹ آئنسٹائن نے نظریہ اضافیت پیش کیا اور اس وقت کے کائناتی تصور جو کہ سٹیٹک ماڈل آف یونیورس کی صورت میں موجود تھا اس کی نفی کی۔ آئنسٹائن سے پہلے نیوٹن فزکس کی دنیا کا بادشاہ تھا اور اس کا کائناتی تصور مابعدالطبیعاتی(metaphysical) تھا یعنی نیوٹن یہ توجانتا تھا کہ تمام اجسام ایک دوسرے کو کھیچتے ہیں اور اس کھیچائو کی وجہ کشش ثقل(gravity) ہے مگر کشش ثقل کیا ہے اس کا جواب اس کے پاس نہیں تھا حالانکہ وہ کشش ثقل کی کمیت معلوم کرنے والی مساوات(equation) بھی دریافت کر چکا تھا۔ اسی طرح کائنات اور حرکت کو وہ عظیم گھڑی ساز اور بے مثال گھڑی کی تمثیل سے سمجھاتا تھا جس کو روز ازل سے چابی دے کر چلا دیا گیا ہے۔ نیوٹن کی طبیعات اپنے دور کی مکمل سچائی کے طور سمجھی اور پڑھائی جاتی تھی۔ مگر آہنسٹائن نے پہلی بار ان کو شک کی نگاہ سے دیکھا اور ثابت کیا کہ علم کی جو حد نیوٹن قائم کر چکا ہے وہ آخری حد نہیں ہے اور اس کے پار بھی دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔

آینسٹائن نے سمجھایا کہ زماں و مکاں ایک ایسے کپڑے کی مانند ہیں جو زمانی اور مکانی ریشوں سے سلا ہے اور تمام اجسام اسے کپڑے کے اوپر وجود پزیر ہیں اب ماجرہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی بھاری جسم زماں و مکاں میں وجود پزیر ہوتا ہے تو یہ اپنے گرد ایک گڑھا سا بنا لیتا ہے جس کی وجہ سے اردگرد کے کم وزنی جسم اس گڑھے کے اندر گرنے لگتے ہیں۔ گرنے کا یہ سفر چونکہ عمودی دائرے میں ہوتا ہے اس لیے ہمیں ہلکے اجسام بھاری اجسام کے گرد چکر لگاتے نظر آتے ہیں۔ سائنسدان انبیاء نہیں ہوتے اس لیے ان کو اپنے دعوے ثابت کرنے کے لیے پیشن گوئیاں کرنی پڑتی ہیں اور اگر یہ پیش گوئیاں درست ثابت ہوں اور تجربے میں درست نتیجے دیں تو سائنسی نظریات کو درست مانا جاتا ہے ورنہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جاتا ہے۔

آئنسٹائن نے بھی بہت سی پیشن گوئیاں کی جن میں سے ایک یہ تھی کہ اگر میرا کشش ثقل کا نظریہ درست ہے تو اس کائنات میں ایسے اجسام بھی موجود ہوں گے جو اتنے وزنی ہونگے کہ روشنی کے زرات بھی اس کے اندر گم ہو جائیں گے۔ یعنی یہ وہ اجسام ہوں گے جن کو دیکھنا بہت مشکل ہوگا کیونکہ دیکھنے کا عمل روشنی کے منعکس ہونے سے مشروط ہے لیکن اگر کوئی وجود روشنی کو جذب کر لے تو اس دیکھنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ آہنسٹائن جیسے عظیم دماغ کا دیا ہوا ہوم ورک آج تک دنیا بھر کے سائنسدان کر رہے ہیں اور ہر روز آہنسٹائن درست بھی ثابت ہو رہا ہے لیکن یہاں ایک اور بات ہے جو درست ثابت ہورہی ہے مگر اس پر خاصی توجہ نہیں دی جارہی۔ ہمارے سماج میں ایسے نظریات بہت وافر مقدار میں موجود جو انسانی عقلی استعداد کو بہت ضعیف اور ناکافی ثابت کرتے ہیں۔ جن کا ماننا ہے کہ انسان کے محدود دماغ کے لیے یہ ناممکن کہ وہ اس وسیع کائنات کا درست علم حاصل کرسکے۔ تو ان تمام احباب سے گذارش ہے کہ حالیہ بلیک ہول جس کا مشاہدہ کیا گیا ہے وہ زمین سے پانچ کروڑ تیس لاکھ نوری سال دور ہے اور ایک نوری سال ساڑھے نو ٹریلین کلو میٹر پر محیط ہوتا ہے۔ اگر آج سے سو سال پہلے ایک کمرے بیٹھا اتنی دوری پر واقع سچائی کی درست پیش گوئی کر سکتا ہے تو انسان کچھ بھی کر سکتا ہے۔

اسی طرح کائنات اور حرکت کو وہ عظیم گھڑی ساز اور بے مثال گھڑی کی تمثیل سے سمجھاتا تھا جس کو روز ازل سے چابی دے کر چلا دیا گیا ہے۔ نیوٹن کی طبیعات اپنے دور کی مکمل سچائی کے طور سمجھی اور پڑھائی جاتی تھی۔ مگر آہنسٹائن نے پہلی بار ان کو شک کی نگاہ سے دیکھا اور ثابت کیا کہ علم کی جو حد نیوٹن قائم کر چکا ہے وہ آخری حد نہیں ہے اور اس کے پار بھی دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ آینسٹائن نے سمجھایا کہ زماں و مکاں ایک ایسے کپڑے کی مانند ہیں جو زمانی اور مکانی ریشوں سے سلا ہے اور تمام اجسام اسے کپڑے کے اوپر وجود پزیر ہیں اب ماجرہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی بھاری جسم زماں و مکاں میں وجود پزیر ہوتا ہے تو یہ اپنے گرد ایک گڑھا سا بنا لیتا ہے جس کی وجہ سے اردگرد کے کم وزنی جسم اس گڑھے کے اندر گرنے لگتے ہیں۔ گرنے کا یہ سفر چونکہ عمودی دائرے میں ہوتا ہے اس لیے ہمیں ہلکے اجسام بھاری اجسام کے گرد چکر لگاتے نظر آتے ہیں۔ سائنسدان انبیاء نہیں ہوتے اس لیے ان کو اپنے دعوے ثابت کرنے کے لیے پیشن گوئیاں کرنی پڑتی ہیں اور اگر یہ پیش گوئیاں درست ثابت ہوں اور تجربے میں درست نتیجے دیں تو سائنسی نظریات کو درست مانا جاتا ہے ورنہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جاتا ہے۔

آئنسٹائن نے بھی بہت سی پیشن گوئیاں کی جن میں سے ایک یہ تھی کہ اگر میرا کشش ثقل کا نظریہ درست ہے تو اس کائنات میں ایسے اجسام بھی موجود ہوں گے جو اتنے وزنی ہونگے کہ روشنی کے زرات بھی اس کے اندر گم ہو جائیں گے۔ یعنی یہ وہ اجسام ہوں گے جن کو دیکھنا بہت مشکل ہوگا کیونکہ دیکھنے کا عمل روشنی کے منعکس ہونے سے مشروط ہے لیکن اگر کوئی وجود روشنی کو جذب کر لے تو اس دیکھنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ آہنسٹائن جیسے عظیم دماغ کا دیا ہوا ہوم ورک آج تک دنیا بھر کے سائنسدان کر رہے ہیں اور ہر روز آہنسٹائن درست بھی ثابت ہو رہا ہے لیکن یہاں ایک اور بات ہے جو درست ثابت ہورہی ہے مگر اس پر خاصی توجہ نہیں دی جارہی۔ ہمارے سماج میں ایسے نظریات بہت وافر مقدار میں موجود جو انسانی عقلی استعداد کو بہت ضعیف اور ناکافی ثابت کرتے ہیں۔ جن کا ماننا ہے کہ انسان کے محدود دماغ کے لیے یہ ناممکن کہ وہ اس وسیع کائنات کا درست علم حاصل کرسکے۔ تو ان تمام احباب سے گذارش ہے کہ حالیہ بلیک ہول جس کا مشاہدہ کیا گیا ہے وہ زمین سے پانچ کروڑ تیس لاکھ نوری سال دور ہے اور ایک نوری سال ساڑھے نو ٹریلین کلو میٹر پر محیط ہوتا ہے۔ اگر آج سے سو سال پہلے ایک کمرے بیٹھا اتنی دوری پر واقع سچائی کی درست پیش گوئی کر سکتا ہے تو انسان کچھ بھی کر سکتا ہے۔



About Post Author

About the author