مزدوری از سعادت حسن منٹو

اُونچے مکان کی کھڑکی میں سے مل مل کا تھان پھڑپھڑاتا ہوا باہر نکلا، شعلے کی زبان نے ہولے ہولے اسے چاٹا۔ سڑک تک پہنچا تو راکھ کا ڈھیر تھا۔ “پوں پوں، پوں پوں” موٹر کے ہارن کی آواز کے ساتھ دو عورتوں کی چیخیں بھی تھیں۔

خواب نگر کی آنکھیں۔

وہ خواب نگر کی آنکھیں۔ کتنی مدت بعد میرا ان سے سامنا ہوا تھا۔ وہ صحرائی حسینہ جس کے چہرے پر صحرا کے کالے…

وہ کون تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

’’ارے رکیے،ارے سنئیے‘‘ میں نے مڑ کر دیکھا توایک نوجوان لڑکا میری طرف بھاگا آ رہا تھا۔بوسیدہ سا سفید کرتا اور پتلوں پہنے ہوئے…