22 اور 27 اکتوبر کے درمیاں اٹکی ریاستی تاریخ

ہندوستانی بیانیہ یہ ہے کہ بائیں اکتوبر ریاست جموں کشمیر کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جموں کے ہندو اور وادی کے غیر مسلموں کے ساتھ ساتھ تاریخ سے معمولی شد بد رکھنے والے ریاست جموں کشمیر کے شہری (کشمیری) بائیس اکتوبر کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔

پاکستانی بیانیہ یہ ہے کہ ستائیس اکتوبر یعنی بھارت کا ریاست جموں کشمیر میں داخلہ ریاست کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار ہے۔ اس لیے پاکستان کے بیانیے سے متاثر یا پاکستان کو اسپورٹ کرنے والے ستائیس اکتوبر کو یوم سیاہ قرار دیتے ہیں۔ پاکستان میں ریاست جموں کشمیر کے موجودہ تنازعہ کا مسئلہ ہی ستائیس اکتوبر سے شروع ہوتا ہے اس سے قبل راوی چین ہی چین لکھتا ہے

ہمارا کوئی بیانیہ ہی نہیں ہے۔ ہم بائیس ستائیس، چوبیس اکتوبر بھی مناتے ہیں، چودہ اگست، چھ ستمبر 23 مارچ بھی مناتے ہیں۔ پندرہ اگست، چھبیس جنوری اور پتا نہیں کیا کیا مناتے ہیں۔

ستائیں اکتوبر 1947 کو بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان کو بھیجے گئے ایک ٹیلی گرام میں لکھا
“میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس ہنگامی صورتحال میں کشمیری امداد کا سوال بھارت کے ریاست پر اثر انداز کرنے کے کسی بھی طریقے سے ترتیب نہیں کیا گیا ہے. ہمارے نقطہ نظر جس نے ہم بار بار عوام کو بتایا ہے یہ ہے کہ کسی بھی متضاد علاقے یا ریاست میں رسائی کا سوال پر وہاں کے لوگوں کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق فیصلہ کیا جائے اور ہم اس نظریے پر عمل کریں “

سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے بھی مسئلہ کشمیر کو انسانی، جمہوری اور کشمیریت کی بنیادوں پر حل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ یو این سی آئی پی کا ناکام ہونا ہی ریاست جموں کشمیر کے مستقبل کا رخ متعین کر چکا تھا اس کے بعد دونوں ممالک کی حوس ملک گیری نے جہاں نئے راستے متعین کیے وہیں ایک جانب ریاست کے ساتھ، دہلی ایکارڈ، کراچی پیکٹ، اور ایکٹ چہتر جیسے معائدے کیے گئے وہیں دوسری جانب دونوں ممالک نے پہلے اقوام متحدہ میں رائے شماری کو محدود کروایا اور پھر شملہ معائدے میں اسے دونوں ممالک کا آپسی سرحدی معاملہ (Bilateral Issue) بنا ریاست جموں کشمیر کی دو کروڑ عوام کے ساتھ انتہائی بھونڈا مذاق کیا۔

بھارت نے 5 اگست کو آرٹیکل 370 کو یک طرفہ طور پر ختم کر کے اس تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کی کوشش کی ہے اور یہ سب اچانک نہیں ہوا ہے بلکہ اس کے پیچھے کئی دہائیوں کی پالیسی اور دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات اور پالیسیان کارفرما ہیں۔ تاریخ کے اس دوراہے پر ریاست جموں کشمیر کے لوگوں کو ہی اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہو گا وگرنہ چند برس بعد ریاست پاکستان اور بھارت کی تحصیل ہو گی۔

About Post Author

About the author

جواداحمد پارسؔ کا تعلق ریاست جموں کشمیر کی خوبصورت وادی نیلم سے ہے اور اسلام آباد پاکستان میں مقیم ہیں۔ آپ نے کراچی یونیورسٹی سے معاشیات اور ماس کمیونیکشنز میں ماسٹرز کر رکھا ہے اور آئی ٹی اور صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ قومی جمہوری آزادی اور خود مختار ریاست جموں کشمیر کے داعی ہیں