انڈین حکومت نے تنقید کرنے پر پروفیسر کو گرفتار کرلیا

گزشتہ روز اشوکا یونیورسٹی کے شعبۂ سیاسیات کے سربراہ اور ایسوسی ایٹ پروفیسر علی خان محمودآباد کو دہلی میں “آپریشن سندور” کے تناظر میں ایک سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ٹویٹ کی وجہ سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔

ان کی گرفتاری پر تعلیمی حلقوں، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

انڈین ریاست ہریانہ کی اشوکا یونیورسٹی کے اساتذہ کی تنظیم نے اس گرفتاری کی شدید مذمت کی اور اسے “سوچی سمجھی ہراسانی” قرار دیا جو بے بنیاد اور ناقابلِ جواز الزامات پر مبنی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ اقدام اکیڈمک آزادی اور آئینی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

گرفتاری کی بنیاد ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر کی گئی وہ پوسٹ بنی جو پروفیسر محمودآباد نے 16 مئی 2025 کو کی۔ اس پوسٹ میں انہوں نے انڈین فوج کی حالیہ کارروائی کے تناظر میں جنگی جنون اور قومی غیرت کے نام پر نفرت پھیلانے کے رویے پر تنقید کی تھی:

“It is disheartening to see war hysteria being glorified in the name of national honour. Not all Indian citizens support chest-thumping militarism. We should grieve every innocent death—Indian or Pakistani. True patriotism lies in upholding humanity, not demonising the ‘other’.”

(یہ باعثِ افسوس ہے کہ قومی غیرت کے نام پر جنگی جنون کو گلوری فائی کیا جا رہا ہے۔ ہر بھارتی شہری عسکری جنونیت کی حمایت نہیں کرتا ہے۔ ہمیں ہر بے گناہ کی موت پر سوگ منانا چاہیے—چاہے وہ انڈین ہو یا پاکستانی۔ سچی حب الوطنی انسانیت کو بلند کرنے میں ہے، دوسروں کو شیطان ثابت کرنے میں نہیں۔)

اسی پوسٹ میں انہوں نے مزید لکھا:

“If we are to honour the memory of those we’ve lost, let it not be by losing our moral compass. A woman in uniform is not a shield for state impunity. Peace is not cowardice.”

“اگر ہم ان لوگوں کی یاد کو عزت دینا چاہتے ہیں جنھیں ہم کھو چکے ہیں، تو یہ ہماری اخلاقی اقدار کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے۔ وردی میں ایک عورت ریاستی استثنا کی ڈھال نہیں بن سکتی۔ امن کو بزدلی نہیں سمجھنا چاہیے۔)

ان بیانات کو شکایت کنندگان نے ملک دشمنی اور افواجِ ہند کی توہین کے طور پر لیا۔ الزام یہ بھی لگایا گیا کہ انہوں نے خواتین فوجی اہلکاروں (کرنل قریشی) کی تضحیک کی اور ریاستی کارروائی کو غیر قانونی ٹھہرایا۔

ان پر تعزیراتِ ہند کی دفعات 153A، 505(2)، 124A اور آئی ٹی ایکٹ کی چند شقوں کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ شکایت رینو بھاٹیا (چیئرپرسن، ہریانہ ویمنز کمیشن) اور بی جے پی کی یوتھ ونگ کی ایک کارکن نے درج کروائی ہے۔

شکایت کرنے والوں نے کہا کہ پروفیسر علی خاں محمودآباد نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹس سے نہ صرف قومی جذبات کو ٹھیس پہنچائی بلکہ حساس موقع پر سماجی منافرت کو ہوا دی۔

گرفتاری سے قبل پروفیسر محمودآباد نے ہریانہ ویمنز کمیشن کے نوٹس کا جواب دیا تھا، جس میں انہوں نے واضح کیا کہ ان کی باتوں کا مطلب توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔

علی خان محمودآباد کا کہنا تھا کہ وہ نہ فوج کی توہین کر رہے تھے، نہ خواتین اہلکاروں پر تنقید کر رہے تھے، بلکہ صرف جنگی جنون اور انتقامی بیانیے پر تنقید کر رہے تھے۔

انہوں نے پہلگام قتلِ عام کی سخت مذمت کی اور کہا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف ریاست کے اقدامات کی اصولی حمایت کرتے ہیں، مگر امن اور انسانی ہمدردی کے پہلو کو فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔

پروفیسر محمودآباد کی گرفتاری کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک درخواست دائر کر دی گئی ہے، جسے عدالت نے سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت اسے شہری آزادیوں اور اظہارِ رائے کی آزادی کے ایک اہم مقدمے کے طور پر لے رہی ہے۔

اس مقدمے نے بھارت میں بڑھتے ہوئے ریاستی کنٹرول، اکیڈمک فریڈم پر قدغنوں، اور اختلافِ رائے کی آوازوں کو خاموش کرنے کے رجحان پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

انڈیا کے ممتاز مورخین جیسے کہ سید عرفان حبیب اور شاہ عمیر نے پروفیسر محمودآباد کی حمایت کی اور کہا کہ ان کے بیانات دراصل ایک انسان دوست حب الوطنی کی ترجمانی کرتے ہیں، نہ کہ کسی ریاستی ادارے کی توہین۔

اس گرفتاری کو انڈیا میں بڑھتی ہوئی آمرانہ روش اور اختلافِ رائے کی گنجائش میں مسلسل کمی کے تسلسل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ سیاسی اظہار کی پیچیدہ یا تنقیدی شکلوں کو جرم بنا دینا، خاص طور پر جب وہ کسی سکالر کی جانب سے آئے، ایک آمرانہ حد سے تجاوز ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر نگرانی کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے اور انہیں ان افراد کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے جو ریاستی بیانیے سے اختلاف کرتے ہیں۔

پروفیسر علی خان محمودآباد مہاراجہ محمود آباد، راجہ محمد امیر احمد خان محمود آباد کے پوتے ہیں جو قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی دوست اور سیاسی ساتھی تھے۔

راجہ محمد امیر احمد خان محمود آباد متحدہ صوبہ جات (موجودہ اتر پردیش، انڈیا) کے علاقے محمود آباد کے آخری حکمران تعلقدار (جاگیردار) تھے اور آل انڈیا مسلم لیگ کے خزانچی اور اسے مالی مدد دیتے تھے۔

راجہ صاحب آف محمودآباد ایک نہایت تعلیم یافتہ، باوقار اور مہذب شخصیت تھے، جنہوں نے جناح سے دوستی کی وجہ سے تحریکِ پاکستان کی بھرپور حمایت کی تھی۔

قائداعظم محمد علی جناح انہیں بہت اعتماد کی نگاہ سے دیکھتے تھے، اور قیامِ پاکستان سے پہلے کے نازک سالوں میں وہ ان کے قریبی مشیروں میں شامل تھے۔

1947 میں پاکستان ہجرت کر کے آئے مگر جناح کے بعد کے حالات سے مایوس ہو کر وہ برطانیہ منتقل ہو گئے جہاں وہ اپنی وفات (1973) تک مقیم رہے۔ پاکستان ہجرت کرنے کی وجہ سے انڈین حکومت نے راجہ آف محمودآباد کی جائیداد ضبط کر لی تھی۔

ان کا فکری اور علمی ورثہ آج بھی زندہ ہے، جسے ان کے پوتے پروفیسر علی خان محمود آباد (تاریخ دان اور ماہرِ سیاسیات) نے جاری رکھا ہوا ہے۔

راجہ صاحب آف محمودآباد، راجہ محمد امیر احمد خان، اُن کے بیٹے، راجہ محمد امیر محمد خان، اور اُن کے پوتے علی خان محمودآباد، سبھی کیمبرج یونیورسٹی کے گریجویٹس ہیں۔

About Post Author

About the author