چین اور امریکہ اقتصادی ٹکراو

چند برسوں یا عشروں تک ذر مبادلہ کا معیار امریکی ڈالر کے بجائے سونا ہو گا۔ بین الاقوامی منڈی میں سونا بحیثیت زر مبادلہ دراصل امریکہ کی بین الاقوامی معیشت پر اجارہ داری کی موت ہو گی کیونکہ موجودہ حالت میں امریکی ڈالر کی بین الاقوامی منڈی میں طلب امریکہ کے ذر مبادلہ کے ذخائر کی ایک بڑی وجہ ہے۔ روس کا سب سے بڑا سبربیک ۲۰۱۸ میں چین کو ۱۰ سے ۱۵ ٹن سونا فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور یہ سلسلہ ۲۰۱۴ سے جاری ہے وارضح رہے کہ چینی کرنسی ین اور روسی روبل سو فیصد سونے کے ذخیرہ سے منسلک ہیں۔

چین شنگھائی تعاون کی تنظیم (جس کے اس وقت آٹھ رکن ممالک ہیں اور مستقبل میں بڑھ بھی سکتے ہیں جن میں ہندوستان اور پاکستان بھی شامل ہیں)، بریکس اور دیگری اقتصادی تنظیموں کی بلاواسطہ اور بالواسطہ معاونت سے بین الاقوامی تجارتی منڈی پر اپنی دھوک بٹھانے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری جیسے بڑے منصوبے کی تکمیل کے بعد چین کی خطے میں اقتصادی برتری کے ساتھ ساتھ سیاسی اور فوجی مداخلت بھی بڑھ جائے گی۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں پہلے ہی وسط ایشیائی ممالک شامل ہیں اور آئندہ چند برسوں میں عرب ممالک بھی چین کی طرف جھکنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ایران پہلے ہی ترقیاتی، اقتصادی اور دفاعی معائدوں میں چین سے منسلک ہے اور امریکی پابندیاں اس تعلق کو مزید تقویت دینے کی کڑی ثابت ہو سکتی ہیں۔

چین کی سب سے بڑی کامیابی یہ رہی کہ آزادی کے بعد چین میں سیاسی استحکام رہا اور چینی سیاست آمرانہ رویوں سے بالکل نہیں کترائی، بنیادی انسانی حقوق کی پامالیوں کا مسئلہ الگ سے دبایا جاتا رہا اور علیحدگی پسند عناصر کو بزور قوت مٹایا جاتا رہا، یک جماعتی سیاسی نظام ہونے کے ساتھ ساتھ چین مختلف معاشی اور سیاسی نظریات کا ملغوبہ رہا ہے اور ابھی تک ہے۔ اسی دوران چین نے انسانی ذرائع کا بھر پور استعمال کیا اور ساتھ ساتھ آبادی کا تناسب بھی ملکی وسائل اور ضروریات کے عین مطابق ترتیب دیا۔ سیاسی جمود تو اپنی جگہ لیکن چین نے معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ عسکری سطح پر بھی بھر پور ترقی کی اور جدید ٹیکنالوجی میں بھی یورپ اور امریکہ کے مدمقابل رہا۔

چین کی اس وقت بظاہر عسکری سطح پر انڈیا کے علاوہ کسی سے جنگ نہیں ہے البتہ چین اقتصادی طور پر پورے مغرب سے پنگا لے رہا ہے یورپی یونین گرچہ چین کے فی الحال کے اقدامات سےاتنی متاثر نہیں ہیں مگر مستقبل میں اس پر بھی اثر پڑ سکتا ہے جبکہ افریکی ممالک کے اقتصادی اتحاد بھی زیادہ متاثر نظر نہیں آ رہے ہیں لیکن مستقبل قریب میں ان کو بھی بڑے فیصلے لینے پڑ سکتے ہیں۔ فی الحال جن ممالک یا جغرافیائی وحدتوں میں چین اپنے پاوں چادر سمیت پھیلا رہا ہے ان کی کل آبادی ساڑھے چار ارب سے زائد بنتی ہے یعنی دنیا کی ستر فیصد آبادی جو کہ انسانی ذرائع کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں۔ یوں اب امریکہ اور چین براہ راست ٹکر میں ہیں بلکہ یوں کہا جائے کہ چین دو ہاتھ آگے ہے تو بے جا نہیں ہو گا۔

امریکی ڈالر فی الحال بین الاقوامی طلب و رسد پر کھڑا ہے بین الاقومی طلب میں اس کی گراوٹ کا مطلب ڈالر کی قدر میں کمی ہے جبکہ مستقبل قریب میں امریکہ کی سیاسی صورتحال کچھ مزید خراب ہوتی نظر آ رہی ہے ان حالات میں امریکن حکمت عملی ساز کیا کریں گے فی الحال کچھ کہا نہیں جا سکتا تاہم چین کی حکمت عملی کم از کم امریکہ کو ایشیائ سے بے دخل کر دے گی۔

#جواداحمدپارسؔ

About Post Author

About the author

جواد احمد پارس ایک کشمیری فلم ساز، کہانی نویس اور اسکرین رائٹر ہیں جنہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو فلم اور کہانی گوئی کے ذریعے اجاگر کیا ہے۔ وہ Fervid Productions کے شریک بانی اور کریئیٹو ہیڈ ہیں، جہاں وہ فلم سازی اور اسکرپٹ رائٹنگ کے مختلف پراجیکٹس کی قیادت کرتے ہیں۔

تقریباً ایک دہائی سے زیادہ عرصہ فلم انڈسٹری میں فعال رہنے کے بعد، پارس نے ایسی دستاویزی اور بیانیہ فلمیں تخلیق کی ہیں جو سماجی اور ثقافتی مسائل کو اجاگر کرتی ہیں۔ ان کے نمایاں کاموں میں کشمیری خواتین کی زندگیوں پر مبنی کہانیاں اور فلم "Mattu (The Rat Children)" شامل ہیں، جسے تنقیدی سطح پر پذیرائی ملی۔

ان کا مقصد فلم کے ذریعے سماج میں شعور بیدار کرنا اور ایسی کہانیاں سنانا ہے جو عموماً پسِ منظر میں رہ جاتی ہیں۔ بطور فلم ساز اور کہانی نویس، جواد احمد پارس اپنی نئی سوچ، حقیقت نگاری اور فنکارانہ بصیرت کے باعث پاکستانی اور بین الاقوامی سطح پر پہچانے جاتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *