مولانا سعید مسعودی – کشمیر کی تاریخ کا درخشاں ستارہ

غزالہ شاہ
مولانامسعودی ؒ کی زندگی جہد مسلسل کا ایک نمونہ تھی۔اوائل عمری میں اپنے تایا قاضی عبدالاحد کے ساتھ لاہور تشریف لے گئے۔وہاں اردو،عربی اور فارسی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک کارکن کی حیثیت سے انہوں نے تنظیم احراراور علامہ اقبال کمیٹی میں اپنی خدمات انجام دیں۔
1947میں کشمیر میں شروع ہونے والی تحریک کی وجہ سے وہ واپس اپنی وادی تشریف لے آئے۔یہاں آنے کے بعد انہوں نے پہلے استاد کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں۔پھر انہوں نے شیخ عبداللّٰہ کا ساتھ اختیار کیااور ان کے ساتھ مل کر ایک تحریک چلائی۔شیخ عبداللّٰہ جب کشمیر میں وزارت کے عہدے پر فائز ہوئے تو مولانا مسعودی ان کے جنرل سیکریٹری کے عہدے پر فائز ہوئے۔مولانا مسعودی ؒ نیشنل کانفرنس کے شریک بانیوں میں سے تھے ۔اور تیس سال کے عرصے تک وہ اس کے جنرل سیکریٹری رہے۔
آپ 1954 میں امیرہ کدل سے ممبر پارلیمنٹ بنے۔چھ سال کا عرصہ پارلیمنٹ میں گزارنے کے بعد بخشی شاہ سے ان کے کچھ اختلافات ہوئے۔ اس دوران شیخ عبداللّٰہ جیل میں تھے۔ لہٰذا مولانا مسعودیؒ نے شیخ عبداللّٰہ کی عدم موجودگی میں دوبارہ ایک تحریک کا آغاز کیا۔مولانا مسعودیؒ نے وادی کشمیر میں اصلاحی ، سماجی اور تعلیمی کاموں میں بھرپور حصہ لیا۔درگاہ حضرت بل میں کافی سماجی کام کروائے۔درگاہ میں لائبریری بنوائی۔اور درس و تدریس کے نصاب کی تدوین کی۔
مولانا ؒ ریاست میں اردو صحافت کے بانیوں میں سے تھے۔ان کی ہمہ جہت شخصیت کا ایک پہلواُن کی شاعری بھی تھی۔انہوں نے خود بھی مذہبی اور محب وطن شاعری لکھی۔
1963 میں جب درگاہ حضرت بل سے موئے مقدس غائب ہوئے ۔تو کشمیر میں بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوا۔ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔اس ضمن میں مولانا ؒ نے ایک اہم کام سر انجام دیا۔موئے مقدس کے بازیاب ہونے کے بعد مولانا مسعودیؒ کو ان کی نشاندہی کے لئے بلایا گیا ۔اور انہوں نے موئے مقدس کی پہچان کرنے کے بعد انہیں اپنی جگہ رکھا۔کشمیر کی عوام کا مولاناؒ پر اعتماد اور یقین کا یہ ایک کھلا ثبوت تھا۔
مولاناؒ کو انڈیا کی سیاست کے اہم ترین عہدے کی پیشکش بھی ہوئی۔مگر انہوں نے اس پیشکش کو نہایت شائستگی کے ساتھ یہ کہتے ہوئے لوٹا
دیا، کہ وہ ٹائٹل یا طاقت ور عہدوں میں دلچسپی نہیں رکھتے۔مولانا احمد سعید آبادی کے بقول مولانا سعید مسعودی ؒ کو مولانا ابو الکلام آزاد کی حکمت اور اسیر مالٹا مولانا محمود الحسنؒ کی سیاست ورثے میں ملی ہے۔
وادی کشمیر میں شروع ہونے والی ایک شورش کے سلسلے میں ان کے خلاف پروپگینڈا شروع ہوا۔اس شورش میں شریک ہونے والے لوگ جو تاریخ اور شخصیات سے ناواقف تھے انہیں دوسرے لوگوں نے اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کیا اور اُکسایا۔مولانا مسعودی اس وقت تک گوشہ نشینی اختیار کر چکے تھے۔پہلی بار جب ان پر قاتلانہ حملہ ہوا تو فائر ان کے ٹوپی کو چھوتا ہوا گزر گیا اوران کی ٹوپی نیچے گِرگئی۔
اس حملے کے کچھ دن بعد ایک دن گاندر بل میں اپنے گھر انہوں نے اپنے ایک دوست کو کسی کتاب کے مسوّدے کے لئے دعوت دی۔اور 13 دسمبرکی اس دوپہر جب وہ کھانا کھانے بیٹھے تو دوبارہ کئے جانے والے قاتلانہ حملے میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
(اس مضمون میں مولانامسعودی کی زندگی کے لکھے گئے حالات ان کی چھوٹی بیٹی مقیم کپواڑہ کے بیان کردہ ہیں۔)

About Post Author

About the author

جواد احمد پارس ایک کشمیری فلم ساز، کہانی نویس اور اسکرین رائٹر ہیں جنہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو فلم اور کہانی گوئی کے ذریعے اجاگر کیا ہے۔ وہ Fervid Productions کے شریک بانی اور کریئیٹو ہیڈ ہیں، جہاں وہ فلم سازی اور اسکرپٹ رائٹنگ کے مختلف پراجیکٹس کی قیادت کرتے ہیں۔

تقریباً ایک دہائی سے زیادہ عرصہ فلم انڈسٹری میں فعال رہنے کے بعد، پارس نے ایسی دستاویزی اور بیانیہ فلمیں تخلیق کی ہیں جو سماجی اور ثقافتی مسائل کو اجاگر کرتی ہیں۔ ان کے نمایاں کاموں میں کشمیری خواتین کی زندگیوں پر مبنی کہانیاں اور فلم "Mattu (The Rat Children)" شامل ہیں، جسے تنقیدی سطح پر پذیرائی ملی۔

ان کا مقصد فلم کے ذریعے سماج میں شعور بیدار کرنا اور ایسی کہانیاں سنانا ہے جو عموماً پسِ منظر میں رہ جاتی ہیں۔ بطور فلم ساز اور کہانی نویس، جواد احمد پارس اپنی نئی سوچ، حقیقت نگاری اور فنکارانہ بصیرت کے باعث پاکستانی اور بین الاقوامی سطح پر پہچانے جاتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *