یکجہتی کشمیر فقط سرکاری ڈرامہ

ابھی دسمبر کی بات ہے کہ آرٹس کونسل اف پاکستان کراچی کا آڈی ٹوریم نمبر 1 کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، اندر سے باہر تو آیا جا سکتا تھا مگر باہر سے اندر جانے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ گیٹ پر پہلے ہی پہنچ گیا تھا اور جوں توں کر کے اندر داخل ہوا، حال میں پاکستانی سینما کے موضوع پر کوئی سیشن چل رہا تھا۔

قریبا آدھا گھنٹہ یہ سیشن چلا اور اس کے بعد اگلا سیشن “مسئلہ کشمیر” پر تھا جس میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے موجودہ صدر کی آمد بھی متوقع تھی اور اس کے علاوہ کشمیر کے کچھ معروف اور غیر معروف نام مندوبین میں شامل تھے۔

سینما کے موضوع پر جونہی سیشن ختم ہوا تو حال سے اٹھ کر لوگ چلے گئے، میری سامنی والی نشست پر دو لوگوں میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ اگلا سیشن کشمیر پر ہے تو دوسرا کہنے لگا چلو پھر چلتے ہیں، حال میں فقط پہلی رو میں چند افراد باقی رہ گئے۔

سیشن میں مشکل سے پچاس سے ستر افراد ہی شریک ہوئے ہوں گے، بحث گرچہ کافی اطمیان بخش رہی اور اخر میں معروف صحافی سہیل وڑائچ میں شامل ہوئے مگر پاکستان عوام کی مسئلہ کشمیر کی ترجیحات پر میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔

پاکستان میں اب کشمیر اور اس سے جڑے ہوئے کسی مسئلے کا نام یا تو فیشن کے طور پر لیا جاتا ہے یا پھر حب الوطنی اور مزہبی جذبات سے مجبور ہو کر وگرنہ پاکستانیوں کو اس مسئلے سے سرے سے کوئی لگاؤ ہے ہی نہیں، شاید یہی وجہ تھی کہ عمران خان نے بھی دو جمعے بے وضو یکجہتی کرنے کے بعد توبہ کر لی تھی۔

پاکستان اور پاکستانیوں کو اب بجا یہ لگتا ہے کہ کشمیر کا جو حصہ ان کے پاس ہے انہی کے پاس رہے گا، وادی پاکستان کے وسائل می کوئی خاص اضافہ نہیں کر سکتی ہے، گلگت بلتستان وہ واحد شے ہے جو پانی کے بعد پاکستان کو ریاست جموں کشمیر سے درکار ہے اور وہ بھی پاکستان کی جھولی میں ہے۔

آج ایک دفعہ پھر پاکستانی عوام کو راحت کا ایک دن میسر ائے گا، سرکاری نوکر چھٹی کریں گے اور بارہ ایک بجے تک نیند پوری کریں گے، شام میں بچوں کے پارک لے جائیں گے یا پھر فیملی گیٹ ٹو گیدر ہو جائے گا۔ انہیں اس چیز سے دلچسپی نہں ہے کہ ایل او سی پر فائرنگ سے دس افراد مر جاتے ہیں لیکن پاکستانی میڈیا سات دن بعد خبر چلاتا ہے۔

انہیں فکر نہیں ہے کہ وادی میں چھ ماہ سے کون بھوکا سویا ہے اور کس کی انکھ شدت غم سے نہیں لگی ہے، کس کا بیٹا بھارتی فوج نے اٹھا لیا تھا اور کون بے قصور بے موت مارا گیا ہے۔ ہاں البتہ یہ دن ایک پریکٹس کے طور پر شاید چند برس اور جاری رہے۔

About Post Author

About the author

جواد احمد پارس ایک کشمیری فلم ساز، کہانی نویس اور اسکرین رائٹر ہیں جنہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو فلم اور کہانی گوئی کے ذریعے اجاگر کیا ہے۔ وہ Fervid Productions کے شریک بانی اور کریئیٹو ہیڈ ہیں، جہاں وہ فلم سازی اور اسکرپٹ رائٹنگ کے مختلف پراجیکٹس کی قیادت کرتے ہیں۔

تقریباً ایک دہائی سے زیادہ عرصہ فلم انڈسٹری میں فعال رہنے کے بعد، پارس نے ایسی دستاویزی اور بیانیہ فلمیں تخلیق کی ہیں جو سماجی اور ثقافتی مسائل کو اجاگر کرتی ہیں۔ ان کے نمایاں کاموں میں کشمیری خواتین کی زندگیوں پر مبنی کہانیاں اور فلم "Mattu (The Rat Children)" شامل ہیں، جسے تنقیدی سطح پر پذیرائی ملی۔

ان کا مقصد فلم کے ذریعے سماج میں شعور بیدار کرنا اور ایسی کہانیاں سنانا ہے جو عموماً پسِ منظر میں رہ جاتی ہیں۔ بطور فلم ساز اور کہانی نویس، جواد احمد پارس اپنی نئی سوچ، حقیقت نگاری اور فنکارانہ بصیرت کے باعث پاکستانی اور بین الاقوامی سطح پر پہچانے جاتے ہیں۔