آزاد کشمیر حکومت کا نیلم ویلی میں جنگلات کے کٹاؤ کا خطرناک منصوبہ

آزاد کشمیر حکومت نے نیلم ویلی سے دس لاکھ مربع فٹ کی لکڑی کی نکاسی کے ٹینڈرز جاری کیے ہیں۔ انتہائی قیمتی لکڑی کے حامل ان جنگلات سے منصوبے کے تحت کم از کم ایک لاکھ درختوں کو کاٹا جائے گا جو کہ موجودہ حکومت کا ایک بدترین کارنامہ ہو گا۔ نیلم ویلی میں پہلے ہی جنگلات کا کٹاؤ بدترین حال میں ہے مقامی لوگ تو اسے یہ تو ایندھن کے لیے استعمال کرتے ہیں یا پھر تعمیر کے لیے مگر محمکہ جنگلات اسے مظفرآباد سے کراچی تک اپنے آقاؤں کو پہنچانے میں ہمہ جہت رہتا ہے۔

نیلم ویلی کے جنگلات میں دیودار کی انتہائی نایاب اور مہنگی نسل پائی جاتی ہیں جس کی لکڑی بیش قیمتی ہے۔ اس سے قبل آزاد کشمیر میں اکلاسک نامی ادارا اس لکڑی کی نکاسی کا ذمہ دار تھا مگر گزشتہ برس اس کو ختم کر دیا گیا ہے جس مستعفی کیے گئے ملازمین کو اب تگ حسب وعدہ پنشنز کا اجراء نہیں کیا گیا ہے۔ کچھ لوگ اس پر اعتراض اٹھاتے ہیں کہ پھر حکومت اپنا بجٹ اور خسارہ کہاں سے پورا کرے تو آزاد کشمیر حکومت کا صرف منگلا ڈیم سے سالانہ ریونیو ساڑھے چار سو ارب ہے جب کہ اس وقت نیلم جہلم بھی اپنی مکمل کیپسٹی میں کام کر رہا ہے۔

نیلم ویلی کے جنگلات کے لیے حکومت دشمنی کوئی نئی روش نہیں ہے بلکہ یہ روایت کئی دہائیوں سے برقرار ہے۔ پاکستان کی سول بیوروکریسی ہو یا م – مافیا ان سب کے گھر نیلم سے جنگلات کی کٹائی کے بعد اسلام باد، لاہور اور کراچی کے بحریہ اور ڈی ایچ ایز میں استعمال کی جاتی ہے۔ گزشتہ برس ایک دوست نے چونکا دینے والا انکشاف کیا تھا کہ صرف اپر نیلم ویلی سے ایک رات میں تقریبا پانچ ہزار درخت کاٹے گئے ہیں اور جب کچھ صحافیوں کو اس پر آواز اٹھانے کی کوشش کی تو اسے زبردستی دبا دیا گیا۔

نیلم ویلی سے جنگلات پہلے ہی تقریبا ختم ہو چکے ہیں، محمکہ جنگلات ایک طاقتور اور بااثر ادارہ ہے حتی کہ محکمہ جنگلات کا رینج آفیسر بعض اوقات آزاد کشمیر کے سیکرٹری سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے لیکن نئے درخت لگانے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔ ایک طرف جنگلات کی کٹائی سے مقامی صنعت کو نقصان ہو رہا ہے تو دوسری طرف ماحولیات کو شدید خطرہ لائق ہے جنگلی حیات تقریبا ناپید ہو چکی ہیں جبکہ لینڈ سلائیڈنگ بھی ایک بڑا قضیہ بن گیا ہے۔

مقامی سطح پر صرف لکڑی سے جڑی صنعت کو ہی تھوڑا بہت مقام حاصل ہے حکومت اس طرف توجہ دینے اور اس کو ترویج دینے کے بجائے لکڑی کی نکاسی کرتی ہے اور اسے کم قیمت پر پاکستان میں فروخت کیا جاتا ہے اس میں سے زیادہ تر تحفے کے طور پر آقاؤں کو پیش کیا جاتا ہے جس سے واحد مقامی صنعت بھی شدید خطرات سے دوچار ہے۔ جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے گزشتہ چند سالون میں جہان پانی میں واضح کمی واقع ہوئی ہے وہیں درجہ حرارت بھی بتدریج بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے مقامی فصلیں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔

نیلم ویلی کے جنگلات صرف نیلم ویلی ہی کے نہیں آزاد کشمیر، پنجاب اور سندھ کی بقاء کے بھی ضامن ہیں جنگلات کے خاتمے کا یہ خطرناک منصوبہ ہر حال میں روکنا ہو گا وگرنہ چند برس بعد خطہ میں جنگلات کا صرف نام باقی رہ جائے گا۔

About Post Author

About the author

جواد احمد پارس ایک کشمیری فلم ساز، کہانی نویس اور اسکرین رائٹر ہیں جنہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو فلم اور کہانی گوئی کے ذریعے اجاگر کیا ہے۔ وہ Fervid Productions کے شریک بانی اور کریئیٹو ہیڈ ہیں، جہاں وہ فلم سازی اور اسکرپٹ رائٹنگ کے مختلف پراجیکٹس کی قیادت کرتے ہیں۔

تقریباً ایک دہائی سے زیادہ عرصہ فلم انڈسٹری میں فعال رہنے کے بعد، پارس نے ایسی دستاویزی اور بیانیہ فلمیں تخلیق کی ہیں جو سماجی اور ثقافتی مسائل کو اجاگر کرتی ہیں۔ ان کے نمایاں کاموں میں کشمیری خواتین کی زندگیوں پر مبنی کہانیاں اور فلم "Mattu (The Rat Children)" شامل ہیں، جسے تنقیدی سطح پر پذیرائی ملی۔

ان کا مقصد فلم کے ذریعے سماج میں شعور بیدار کرنا اور ایسی کہانیاں سنانا ہے جو عموماً پسِ منظر میں رہ جاتی ہیں۔ بطور فلم ساز اور کہانی نویس، جواد احمد پارس اپنی نئی سوچ، حقیقت نگاری اور فنکارانہ بصیرت کے باعث پاکستانی اور بین الاقوامی سطح پر پہچانے جاتے ہیں۔