اب رائے شماری نہیں خود مختاری

یہ ہماری کمزوری ہے کہ ہم کو ہر تنکے میں سہارا نظر آتا ہے۔ فاروق حیدر کی تقریر کوئی انوکھی اور نئی بات نہیں ہے پاکستان اس حقیقت کو اچھے طریقے سے جانتا ہے کہ ریاست جموں کشمیر نے پکے پھل کی طرح بالآخر آ کر اس کی جھولی میں نہیں گرنا ہے اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن سب سے اہم وجہ بہتر سال سے اسٹیبلشمنٹ کی وہ چالاکیاں ہیں جو کمونیکیشن کی محدود ہونے کی وجہ سے وہ عام شہریوں کو ورغلانے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں پاکستان کی مجرمانہ حیثیت ان کی کسی بھی امید کے تابوت میں آخری کیل کی مانند ہیں۔

آج سے کئی دہائیاں قبل لبریشن لیگ کے بانی اور سابق صدر پاکستانی مقبوضہ ریاست خورشید حسن خورشید نے پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی آیک آزاد اور نمائندہ حکومت کے قیام کی تجویز پیش کی تھی، جو ان کی جان پر منتج ہوئی۔ فاروق حیدر اور اس قبیل کے لوگ چڑھتے سورج کے ساتھ اپنے زاویے بدلتے رہتے ہیں اور بعید نہیں کہ کل فاروق حیدر کسی دباؤ کے تحت یہ بھی کہہ دیں کہ ریاست کا معاملہ ختم ہو چکا ہے بچا کچھا پاکستانی مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان ملا کر ایک صوبہ بنا لیا جائے۔

اب صورتحال واضح ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں دونوں ممالک نے اپنے اپنے حساب سے فراموش کر دی ہیں، شملہ معائدے کی رو سے اب مسئلہ ریاست جمون کشمیر ہندوستان اور پاکستان کا مسئلہ ہے۔ ریاست جمون کشمیر کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھنے والا کوئی شہری اس کا فریق نہیں ہے۔

پاکستان کی جانب سے رائے شماری کا چورن اسی لیے فروخت کیا جا رہا ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں موجودہ جغرافیے کو برقرار رکھا جائے اور مستقبل قریب یا بعید میں اس کا کام بھی تمام کر دیا جائے گا۔ ویسے بھی ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کے بغیر رائے شماری نامی ڈرامہ رچایا بھی نہیں جا سکتا ہے۔

ریاست اپنی موجودہ شکل میں کسی طور پر بھی نہیں رہ سکتی ہے۔ پہلا مطالبہ ریاست جمون کشمیر کی خود مختاری ہے اور جب حالات اس قابل ہو جائیں اور ریااست کے اندر سے کسی ایک ملک کے ساتھ الحاق کی کوئی تحریک جنم لے تو ایک چھوٹا سا ریفرنڈم حیثیت واضع کر دے گا۔

ریاست جموں کشمیر کی قومی خود مختاری سے قبل ریاست کے اندر کسی قسم کی رائے شماری اول تو ناممکن ہے اور اگر ممکن بنا بھی لی جاتی ہے تو دو غاصب قوتوں کے ہوتے ہوئے صحیح نتائج حاصل کرنا ناممکن ہے

About Post Author

About the author

جواد احمد پارس ایک کشمیری فلم ساز، کہانی نویس اور اسکرین رائٹر ہیں جنہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو فلم اور کہانی گوئی کے ذریعے اجاگر کیا ہے۔ وہ Fervid Productions کے شریک بانی اور کریئیٹو ہیڈ ہیں، جہاں وہ فلم سازی اور اسکرپٹ رائٹنگ کے مختلف پراجیکٹس کی قیادت کرتے ہیں۔

تقریباً ایک دہائی سے زیادہ عرصہ فلم انڈسٹری میں فعال رہنے کے بعد، پارس نے ایسی دستاویزی اور بیانیہ فلمیں تخلیق کی ہیں جو سماجی اور ثقافتی مسائل کو اجاگر کرتی ہیں۔ ان کے نمایاں کاموں میں کشمیری خواتین کی زندگیوں پر مبنی کہانیاں اور فلم "Mattu (The Rat Children)" شامل ہیں، جسے تنقیدی سطح پر پذیرائی ملی۔

ان کا مقصد فلم کے ذریعے سماج میں شعور بیدار کرنا اور ایسی کہانیاں سنانا ہے جو عموماً پسِ منظر میں رہ جاتی ہیں۔ بطور فلم ساز اور کہانی نویس، جواد احمد پارس اپنی نئی سوچ، حقیقت نگاری اور فنکارانہ بصیرت کے باعث پاکستانی اور بین الاقوامی سطح پر پہچانے جاتے ہیں۔