صدر آزاد کشمیر اور بنیادی انسانی حقوق

 
حال ہی میں ایک ریسرچ کے سلسلے میں میں دنیا بھر کے انڈی جینئس (مقامی) لوگوں کے بارے میں تحقیق کرنے کا موقع ملا۔ یوں تو مقالے کا موضوع حفظان صحت اور مقامی لوگ تھا اور تحقیق کا ایریا ویسٹرن آسٹریلیا تھا لیکن اس تحقیق نے دماغ کے نئے خلیے کھولے جنہوں نے مجھے دنیا میں بھی بنیادی انسانی حقوق بدلتے ہوئے انسانی مسائل کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو جو انڈی جینئس کہلاتے ہیں اور دنیا بھر میں اب بھی جدید تقاضوں کے غیر متوازن زندگی گزار رہے ہیں کے بارے میں سوچنے کا موقع ملا۔
 
اس وقت پوری دنیا میں تقریبا بہتر ممالک میں سینتیس کروڑ انڈی جینئس یا مقامی افراد رہتے ہیں ان کے طور اطور، بود و باش اور رہن سہن جدید دنیا سے بالکل مختلف ہیں اور یہ کسی طور پر بھی جدید دنیا سے ہم آہنگی کے لیے تیار نہیں ہیں یہ اپنی زندگی گزارنے کے لیے وہی روایتی طریقے اپنائے ہوئے ہیں گرچہ مختلف ممالک میں ان قبائل کا استحصال مختلف طریقوں اور رویون سے ہو رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی تہذیب اور باقی رویات کو اہمیت بھی دی جا رہی ہے۔ یہ سب لوگ مل کر دنیا کا چھ فیصد بناتے ہیں ۔
 
ان لوگوں کے رویوں کی وجہ سے دنیا بھر کی فلاحی تنظیموں کو ان کو سرو کرنے میں مووجودہ صدی کی پہلی دہائی میں شدید مشکلات کا سامان تھا اس فاصلے کو پورا کرنے کے لیے دنیا بھر میں نت نئے طریقے سوچے گئے اور ان پر عمل کیا گیا۔ اس مین سب سے زیادہ کردار نیوزی لینڈ ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے ادا کیا ۔ ان ممالک نے مقامی فلاحی تنظیموں کے ڈھانچے اس طرح ترتیب دیے کہ ان لوگوں کی فلاح بھی ہو سکے۔ ان کے حقوق کو گزند بھی نہ پہنچے اور self determination کے تحت یہ اپنے فیصلے اپنی روایات کے اندر رہتے ہوئے کر سکیں۔ واضح رہے کہ ان لوگوں کو دنیا میں بھی چوتھی دنیا کے لوگ سمجھا جاتا ہے جو ابھی تک عہد قدیم میں جی رہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں انڈی جینئس لوگوں کے لیے باقائدہ ایک ادارہ بنایا گیا ہے جو ان لوگوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرتا ہے۔ ان لوگوں کے لیے دیگر فلاحی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ نرسنگ جیسے اہم اور پیچیدہ شعبے میں بھی ان کے بنیادی اقدار کا بھر پور خیال رکھا گیا ہے یہاں تک کہ ان کی خود ارادی اور نقطہ نظر کو بہت ساری پالیسیوں پر ترجیح دی جا رہی ہے۔ اور ان کے متعلق قوانین پر ہر سال نظر ثانی کی جاتی ہے اور حسب ضرورت تبدیلی بھی کی جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے علاقے کی سیاحت کے لیے بھی حکومت سے نہیں مقامی ادارون سے اجازت لینی پڑتی ہے اور اجازت لینے کے لیے پابند ہونا پڑتا ہے کہ ان کے اصولوں، نظریات اور اقدار کا خیال رکھا جائے گا
 
اتنی لمبی تمہید کا مقصد آزاد کشمیر کے موجودہ صدر سردار مسعود خان کا دو روز قبل کا وہ بیان تھا جس میں موصوف نے فرمایا کہ ریاست جموں کشمیر کی خود مختاری ممکن نہیں اور ایسا کرنسے کے لیے اقوم متحدہ میں ایک نئی قرارداد پیش کرنی پڑے گی جو کہ ناممکن ہے۔ صدر صاحب خالصتا بیوروکریٹ ہیں جن کا مقصد چھوٹے چھوٹے ملکی معاملات پر پر بریفنگ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ان کی اس عقلی دلیل پر میں ششدر ہوں کہ وہ اتنا عرصہ بیوروکریسی میں کس کمرے میں بند رہے ہیں۔ جہاں انہیں بیرونی دنیا کی ہوا بھی نہیں لگی۔
 
صدر صاحب نے کہا کہ کشمیر کے دو ہی ممکنہ حل ہیں ہندوستان یا پاکستان، یعنی ریاست جموں کشمیر کے شہریوں کو خود اختیاری کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ وہ اپنی مرضی سے کسی تیسرے یا چوتھے آپشن پر غور ہی نہیں کر سکتے کیونکہ انہیں اس کا حق ہی حاصل نہیں ہے دوم اقوام متحدہ میں قرارداد کیوں پیش نہیں ہو سکتی ہے اگر اقوام متحدہ میں انڈی جینئس لوگوں کو اتنے حقوق مل سکتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی اور منشا سے کاروبار زندگی چلائیں حتی کہ ان کے علاقے مین ان کی اجازت کے بغیر کوئی داخل بھی نہین ہو سکتا تو کشمیریوں کو خود مختاری اور خود اختیاری کا حق کیوں نہیں مل سکتا ہے۔
 
جبکہ یہاں ہندوستان اور پاکستان گزشتہ ستر سال سے بغیر اجازت کہ قبضہ جمائے بیٹھے ہیں جس کو صدر صاحب جسٹیفائی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کشمیریوں کو یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی دو قراردادوں کے ہی پابند ہیں۔ کیا دنیا میں ایسا کوئی دستور موجود ہے؟ اقوام متحدہ میں دو کیا روزانہ دسیوں قراردادیں پیش اور منظور کی جاتی ہیں کیا اقوام متحدہ ہی کی قرارداد کی روشنی میں پاکستان اور ہندوستان نے اپنی افواج کشمیر سے نکال لی ہیں۔ صدر صاحب جیسےلوگ صرف سامراج کے آلہ کار ہو سکتے ہیں ان پر اپنی عقل کے دروازے بند ہوتے ہیں۔ خود مختاری کا فیصلہ ثانوی ہے پہلے خود اختیاری کا حق دیا جائے جس میں خود مختاری کا حق انتخاب بھی موجود ہو

About Post Author

About the author

جواد احمد پارس ایک کشمیری فلم ساز، کہانی نویس اور اسکرین رائٹر ہیں جنہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو فلم اور کہانی گوئی کے ذریعے اجاگر کیا ہے۔ وہ Fervid Productions کے شریک بانی اور کریئیٹو ہیڈ ہیں، جہاں وہ فلم سازی اور اسکرپٹ رائٹنگ کے مختلف پراجیکٹس کی قیادت کرتے ہیں۔

تقریباً ایک دہائی سے زیادہ عرصہ فلم انڈسٹری میں فعال رہنے کے بعد، پارس نے ایسی دستاویزی اور بیانیہ فلمیں تخلیق کی ہیں جو سماجی اور ثقافتی مسائل کو اجاگر کرتی ہیں۔ ان کے نمایاں کاموں میں کشمیری خواتین کی زندگیوں پر مبنی کہانیاں اور فلم "Mattu (The Rat Children)" شامل ہیں، جسے تنقیدی سطح پر پذیرائی ملی۔

ان کا مقصد فلم کے ذریعے سماج میں شعور بیدار کرنا اور ایسی کہانیاں سنانا ہے جو عموماً پسِ منظر میں رہ جاتی ہیں۔ بطور فلم ساز اور کہانی نویس، جواد احمد پارس اپنی نئی سوچ، حقیقت نگاری اور فنکارانہ بصیرت کے باعث پاکستانی اور بین الاقوامی سطح پر پہچانے جاتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *