قدرتی سانحے اور ہم

نیلم ویلی میں دو روز قبل ہونے والا سانحہ ہماری انتظامی صلاحیتوں کی جہان قلعی کھول رہا ہے وہیں ریاست کی سرپرست ریاست کے رویوں پر ایک بار پھر غور کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔ انسانی موت کا تقابل ممکن نہیں ہے لیکن اگر آپ کو یاد ہو، کوئی ڈیڑھ برس قبل ایک پل کے ٹوتنے سے چند پاکستانی طلباء داعی اجل کو لبیک کہہ گئے تھے ریاست نے پانچ روز سوگ منایا تھا۔

انسان یا تو محبت کے لیے لڑتا ہے یا حفاظت کے لیے اور حفاظت میں صحت، شکم پوری اور دیگر ضروریات زندگی سب ہی شامل ہیں۔ ہمارے ہاں مزاحمت کا رجحان نہیں ہے، کسی بڑے سانحے کے بعد خاص و عام کو یہ فکر کھائے جاتی ہے کہ اب معاوضہ کتنا ملے گا اور نمبردار، زیلدار، تھانیدار کے حصے میں کتنا آئے گا۔ ان مسائل کے بارے میں قطعی توجہ نہیں دی جاتی ہے کہ ان آفات سماوی کی وجوہات کیا تھیں، کیا اسباب تھے کہ کئی سو سال یہاں اس قسم کی طوفان/سیلاب نہیں آئے جبکہ اب آ رہے ہیں؟

حیرت ہوتی ہے جب لوگ ، حتی کہ صاحب الرائے لوگ بھی کہتے ہوئے پائے جاتے ہین کہ ریاست نے معاوضہ کم ادا کیا ہے۔ انسانی جانوں کی قیمت ریاست سے حاصل کرنے کے بعد سب خوش و خرم اپنے اپنے کاموں میں مگن ہو جاتے ہیں کہ ایک نئی افت سر آ جاتی ہیں۔

گزشتہ چالیس برسوں میں آزاد کشمیر کے قدرتی وسائل کو جس بے دردی سے لوٹا گیا ہے اس کی مثال شاید ہی ملتی ہو۔ محکمہ جنگلات نے ہر ممکنہ طریقے سے کوشش کی ہے کہ جنگلات باقی نہیں رہیں۔ آج سے دس برس قبل جہاں گھپ اندھیرے والا جنگل ہوتا تھا وہاں اب چٹیل پہاڑ نظر اتے ہیں جن کے اوپر مٹی کھسک کر ختم ہو گئی ہے تو ایسی صورتحال میں کبھی آسمانی بجلی سے سیلاب آ جانا یا پھر برفباری کے بعد برفانی تودے آبادیوں پر آ پڑنا کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔

ہماری یونیورسٹیاں دھڑا دھڑ گریجویٹ پیدا کر رہی ہیں اور یہ گریجویٹ ڈگری لینے کے بعد ہر وہ کام کرنے ہیں جن کا ان کی تعلیم سے کوئی تعلق ہیں ہوتا ہیں، ہم ڈیٹا اور فکٹس پر یقین نہیں رکھتے ہیں بلکہ کسی بھی ساںحے کو کارنامہ قدرت شمار کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں۔ فزکس اور ارضیات کے اصولوں سے ہمارا کیا تعلق ہے جب ہمارے سائنسدان تک اس بات کو تسلیم کرتے ہوں کہ زمین چپٹی ہے۔ ہماری سیاسی سوچ انسانی تاریخ کا بھی ایک زبردست نمونہ ہے۔

بدترین انتظامی صلاحیتیں، سیاسی عدم استحکام، جمود کا شکار عقائد، قدرتی رویوں پر انحصار، زندگی کی بے لچک سچائیوں سے انحراف نے ہمیں سطحی انسان بھی نہہیں رہنے دیا ہے۔ ہم نے ہر وہ کام کیا ہے یا کرنے دیا ہے جو ہماری مجموعی تباہی و بربادی کی راہیں ہموار کرتا ہے۔

About Post Author

About the author

جواد احمد پارس ایک کشمیری فلم ساز، کہانی نویس اور اسکرین رائٹر ہیں جنہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو فلم اور کہانی گوئی کے ذریعے اجاگر کیا ہے۔ وہ Fervid Productions کے شریک بانی اور کریئیٹو ہیڈ ہیں، جہاں وہ فلم سازی اور اسکرپٹ رائٹنگ کے مختلف پراجیکٹس کی قیادت کرتے ہیں۔

تقریباً ایک دہائی سے زیادہ عرصہ فلم انڈسٹری میں فعال رہنے کے بعد، پارس نے ایسی دستاویزی اور بیانیہ فلمیں تخلیق کی ہیں جو سماجی اور ثقافتی مسائل کو اجاگر کرتی ہیں۔ ان کے نمایاں کاموں میں کشمیری خواتین کی زندگیوں پر مبنی کہانیاں اور فلم "Mattu (The Rat Children)" شامل ہیں، جسے تنقیدی سطح پر پذیرائی ملی۔

ان کا مقصد فلم کے ذریعے سماج میں شعور بیدار کرنا اور ایسی کہانیاں سنانا ہے جو عموماً پسِ منظر میں رہ جاتی ہیں۔ بطور فلم ساز اور کہانی نویس، جواد احمد پارس اپنی نئی سوچ، حقیقت نگاری اور فنکارانہ بصیرت کے باعث پاکستانی اور بین الاقوامی سطح پر پہچانے جاتے ہیں۔