آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں پاکستان میں آباد مہاجرین کے لیے مخصوص 12 نشستوں کے خاتمے کا مطالبہ، جو مشترکہ عوامی ایکشن کمیٹی کے ایجنڈے کا ایک مرکزی نکتہ ہے، کسی طور کشمیر کاز پر حملہ نہیں بلکہ جمہوریت کی بحالی، بدعنوانی کے خاتمے اور نمائندگی کو رہائشی آبادی کے مطابق بنانے کے لیے ایک ناگزیر اصلاح ہے۔ تاریخی طور پر یہ نشستیں سیاسی سرپرستی، وسائل کی غلط تقسیم اور وفاقی مداخلت کا ذریعہ بنی رہی ہیں۔ اس لیے جے اے اے سی کا مطالبہ نہ صرف درست ہے بلکہ آئینی انصاف اور عوامی حقِ نمائندگی کے عین مطابق بھی ہے۔
آزاد کشمیر کے عارضی آئین 1974 (ایکٹ VIII) کے مطابق اسمبلی کی 53 نشستوں میں سے 12 نشستیں اُن مہاجرین کے لیے مخصوص ہیں جو مقبوضہ جموں و کشمیر سے ہجرت کرکے پاکستان کے مختلف حصوں (پنجاب، اسلام آباد وغیرہ) میں آباد ہیں۔
2018ء کی ترمیم کے بعد ان نشستوں کو باقاعدہ آئینی تحفظ مل گیا، جس سے ان کا خاتمہ مزید مشکل ہوگیا۔
وقت کے ساتھ یہ نشستیں علامتی نمائندگی کے بجائے سیاسی اثر و رسوخ کا ذریعہ بن گئیں:
آزاد کشمیر کے تقریباً 32 لاکھ ووٹروں میں صرف چند ہزار مہاجر مقیم پاکستان ووٹر ہیں، لیکن انہیں اسمبلی کی 12 نشستیں دی گئی ہیں۔ یوں ان کی سیاسی طاقت ان کی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ ہے۔
یہ نمائندے خود آزاد کشمیر میں نہیں رہتے بلکہ پاکستان کے مختلف شہروں سے منتخب ہوتے ہیں۔ اس لیے انہیں مقامی عوام براہِ راست جواب دہ نہیں ٹھہرا سکتے۔ جن علاقوں میں مقیم ہیں وہاں کے بھی ووٹر ہیں اور باقائدہ عوامی طاقت کا حصہ ہوتے ہیں۔
ان نشستوں پر منتخب ارکان کو آزاد کشمیر کے بجٹ سے فنڈز دیے جاتے ہیں جو اکثر اُن علاقوں میں خرچ ہوتے ہیں جو آزاد کشمیر میں واقع ہی نہیں یا خرچ نہیں ہوتے ہیں۔ یہ لوگ چند سو ووٹ لے کر جیتے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ کہیں جوابدہ نہیں ہوتے۔ نتیجتاً مقامی ترقی کے بجائے فنڈز سیاسی اشرافیہ کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔
آزاد کشمیر کے مقامی باشندے اپنے ہی علاقوں کے فیصلوں میں کمزور پڑ جاتے ہیں، کیونکہ اکثر حکومت سازی انہی مہاجر نشستوں کے ذریعے طے ہوتی ہے۔ مختلف مواقعوں پر یہ حکومت کو بلیک میل کرنے کے کام بھی آتے ہیں ہین اسلام آباد کے مقتدر حلقے اور اشرافیہ انہیں حسب ضرورت استعمال کرتےہیں۔
کیوں جے اے اے سی کا مطالبہ درست ہے؟
1. جمہوری اصول نمائندگی کو مقامی آبادی سے جوڑتے ہیں فیصلہ سازی اُنہی کے ہاتھ میں ہونی چاہیے جو کسی علاقے میں رہتے ہیں، ٹیکس دیتے ہیں اور وہاں کی پالیسیوں کے اثرات برداشت کرتے ہیں۔ مہاجر نشستوں کے ذریعے یہ اصول پامال ہوتا ہے۔
2. یہ نشستیں سیاسی سرپرستی اور وفاقی کنٹرول کا ذریعہ بن چکی ہیں۔
اسلام آباد اور دیگر طاقت ور مراکز انہی نشستوں کے ذریعے آزاد کشمیر کی سیاست پر اثر انداز ہوتے ہیں، جس سے مقامی خودمختاری مجروح ہوتی ہے۔
3. علامتی نمائندگی کو عملی اختیارات کی ضرورت نہیں۔ کچھ حلقے کہتے ہیں کہ یہ نشستیں کشمیر کاز کی علامت ہیں۔ لیکن اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں کبھی ایسی نشستوں کی شرط نہیں رکھی گئی۔ علامتی حمایت کو دوسرے پلیٹ فارمز پر برقرار رکھا جا سکتا ہے، اسمبلی میں اختیارات دینا ضروری نہیں۔ نشستوں کو علامتی طور پر خالی رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔
مہاجر نشستوں کے خاتمے کا مطالبہ کسی منفی سوچ کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک ناگزیر اصلاح ہے۔ یہ نشستیں اپنی اصل علامتی غرض پوری کرنے کے بجائے بدعنوانی، وسائل کی تقسیم اور وفاقی مداخلت کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا مطالبہ آزاد کشمیر کی جمہوری بالادستی، شفافیت اور مقامی ترقی کے لیے ایک درست اور جائز قدم ہے۔ کشمیر کاز کی اصل طاقت ایک مضبوط، خودمختار اور جمہوری آزاد کشمیر میں ہے، اور یہی مقصد اس اصلاح کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

