عورت اور سماجی رتبے کی لڑائی

پہلا طبقاتی سماج غلامانہ نظام کے طور پر سامنے آیا۔ ذہنی اور جسمانی محنت کی تقسیم نے عورت کے سماجی مرتبے کو جہاں کمتر کرنے کے لیے سازگار حالات پیدا کیے وہیں انسانی نسل کو غلام بنانے کی بنیادیں بھی فراہم کیں۔

یکجہتی کشمیر فقط سرکاری ڈرامہ

پاکستان میں اب کشمیر اور اس سے جڑے ہوئے کسی مسئلے کا نام یا تو فیشن کے طور پر لیا جاتا ہے یا پھر حب الوطنی اور مزہبی جذبات سے مجبور ہو کر وگرنہ پاکستانیوں کو اس مسئلے سے سرے سے کوئی لگاؤ ہے ہی نہیں، شاید یہی وجہ تھی کہ عمران خان نے بھی دو جمعے بے وضو یکجہتی کرنے کے بعد توبہ کر لی تھی۔

Abdul Hakeem Kashmiri

سی پیک کیلئے تقسیم جموں کشمیر؟

دسمبر 2019میں عسکری پس منظر کے حامل آزادکشمیر کے سابق صدر سردار انور خان سے ایک طویل نشست ہوئی‘انتہائی محتاط گفت گو کے باوجود سردار انور خان نے یہ تسلیم کیا کہ کشمیر کے بارے میں غیر مقبول فیصلہ کیا جا رہا ہے۔

قدرتی سانحے اور ہم

بدترین انتظامی صلاحیتیں، سیاسی عدم استحکام، جمود کا شکار عقائد، قدرتی رویوں پر انحصار، زندگی کی بے لچک سچائیوں سے انحراف نے ہمیں سطحی انسان بھی نہہیں رہنے دیا ہے۔ ہم نے ہر وہ کام کیا ہے یا کرنے دیا ہے جو ہماری مجموعی تباہی و بربادی کی راہیں ہموار کرتا ہے۔

Farooq Haider Can be the last possible PM of AJK

فاروق حیدر آزاد کشمیر کے آخری ممکنہ وزیر اعظم ہو سکتے ہیں

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں ایسے اشارے دیے گئے ہیں کہ وہ موجودہ “آزاد” جموں کشمیر کے آخری وزیر اعظم ہوں گے. عین ممکن ہے کہ آنے والے وقت میں آزاد کشمیر کی موجودہ آئینی حیثیت کو تبدیل کر دیا جائے.

ہندوستان کے خلاف ناگاز (لینڈ) مزاحمت کی تاریخ

14 اگست کو یہ ناگالام قومی سوشلسٹ کونسل ہی نہیں تھی جس نے ناگا لینڈ کا ایک الگ پرچم لہرایا جو اب ناگاز کا مستقل پرچم بن چکا ہے بلکہ اسے دیگر باغی گروہوں نے بھی لہرایا اور ان شہریون نے بھی اپنے گھروں پر لہرایا جنہیں اکثر پولیس پرچم گرانے کے جرم میں پکڑ کر لے جاتی تھی۔

usman afsar

پانی سر سے گزر چکا ہے: عثمان افسر

پھر مختلف اوقات میں مختلف مرحلوں پہ تقسیم کے منصوبہ پہ عمل دونوں طرف سے جاری رہا ماضی قریب میں چناب فارمولے کا آنا پھر جموں کشمیر کی سرزمین پہ ہی پاکستان کی طرف سے باڑ لگانا ہندوستان کا خاموش رہنا سب ایک ہی کہانی کے حصے ہیں جنہیں سالوں پہلے ترتیب دیا گیا جموں کشمیر کی عوام بہرحال سمجھنے سے قاصر رہی ۔

کرفیو کے 85 دن اور 5 تقاریر – رفعت وانی

خان صاحب اکتیس اکتوبر کو باقائدہ جموں کشمیر کی تقسیم عمل میں لائی جائے گی ۔ گجرات قتل عام کا ماسٹر مائنڈ گورنر کا حلف اُٹھا لے گا اُس کے بعد وادی والے بھی لڑنے کی پوزیشن میں نہیں رہیں گے کیونکہ انڈیا کی ایک ارب پنتیس کروڑ عوام بھی انڈین آرمی کے ساتھ شامل ہی سمجھیں۔

کیا جموں کشمیر پر قبائلی حملہ درست تھا؟

اکتوبر 1947ء میں ریاست جموں و کشمیر کے اندر مہاراجہ ہری سنگھ کی شخصی حکومت کے خلاف کئی ریاستی گروہوں کے احتجاج جاری و ساری تھے۔ جن کا مطالبہ تھا کہ ملک میں شخصی حکمرانی کی بجائے جمہوری نظام حکومت ہونا چاہیے۔۔۔ ریاست جموں و کشمیر میں مہاراجا حکومت کے خلاف چلنے والی تحریک اس ریاست کا ایک اندرونی مسئلہ تھا۔

22 اور 27 اکتوبر کے درمیاں اٹکی ریاستی تاریخ

ستائیں اکتوبر 1947 کو بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان کو بھیجے گئے ایک ٹیلی گرام میں لکھا
“میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس ہنگامی صورتحال میں کشمیری امداد کا سوال بھارت کے ریاست پر اثر انداز کرنے کے کسی بھی طریقے سے ترتیب نہیں کیا گیا ہے. ہمارے نقطہ نظر جس نے ہم بار بار عوام کو بتایا ہے یہ ہے کہ کسی بھی متضاد علاقے یا ریاست میں رسائی کا سوال پر وہاں کے لوگوں کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق فیصلہ کیا جائے اور ہم اس نظریے پر عمل کریں “