Abdul Hakeem Kashmiri

کیا آزادکشمیر کی محدود شناخت بھی دائو پر ہے

وزیراعظم اپنے ارباب اختیار سے دوٹوک انداز میں یہ بات بھی کریں کہ انتظامی رشتوں کے معاہدوں کی توہین ایسا عمل ہے جس سے نفرت جنم لے گی ، احساس محرومی بڑھےگا۔۔۔۔۔۔۔اور اس کے نتائج کبھی بھی اچھے نہیں ہوتے۔

کلاشنکوف سے قلم تک کا سفر – دانش ارشاد

ایسے ہی نوجوانوں میں ایک اچھی تعداد ایسے نوجوانوں کی تھی جنہوں نے پاکستان میں تعلیمی سلسلہ آگے بڑھاکر صحافت کے شعبہ کو کیرئر کے طور چن لیا اور قلم وکیمرے کو اپنا ہتھیار اور روزگار بنایا ۔ پاکستا نی زیر انتظام کشمیر اوراسلام آباد میں فی الوقت کم و بیش80 کشمیری صحافی ایسے ہیں

کشمیر کیا بنے گا؟

کشمیر کو علاقے میں ایک مکمل غیر جانبدار ریاست ہونا چاہیے جو پڑوسی اور دیگر ملکوں کے معاملات سے مکمل الگ تھلگ رہے لیکن جہاں ممکن ہو تنازعات کے حل میں متحاربین کی سہولت کاری کرے۔کشمیر اور اہلِ کشمیر کی سلامتی کی ضمانت اس کے ان پڑوسیوں پر فرض ہو گی جواس کے محتاج ہیں۔ وہ کشمیر کو ایک پارک تسلیم کریں اور جس طرح پارکس بلاتخصیص ہرخاص وعام کے لیے کھلے ہوتے ہیں

معائدہ امرتسر، متفرق و متضاد پہلو

معاہدہ امرتسر بلا شبہ ریاست جموں کشمیر کی تشکیل و تعمیر کی بنیاد بنا، جہاں اہل علم اس کی اہمیت و افادیت سے بخوبی واقف ہیں وہیں تاریخ و سیاست سے نابلد ایسے لوگ یا گروہ بھی موجود ہیں جو تاریخی حقیقتوں کا انکار کرتے ہوئے جہاں اس معاہدہ پر غیر انسانی ہونے کا لیبل لگاتے ہیں وہیں اس کی غلط اور من مانی تشریحات کرتے ہوئے غیر منطقی

پشتنی باشندگی قوانین اور گلگت بلتستان

سٹیٹ اسبجیکٹ رولز کا نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے جہاںگلگت بلتستان میں عوام روز اول سے مقامی وسائل سے محروم رہے وہیںغیر ریاستی افراد کو جائیدادوں کی الاٹمنٹ بھی کی گئی ۔

تو زندہ ہے تو زندگی کی جیت پر یقین رکھ ؛ احسن علی

آئنسٹائن نے بھی بہت سی پیشن گوئیاں کی جن میں سے ایک یہ تھی کہ اگر میرا کشش ثقل کا نظریہ درست ہے تو اس کائنات میں ایسے اجسام بھی موجود ہوں گے جو اتنے وزنی ہونگے کہ روشنی کے زرات بھی اس کے اندر گم ہو جائیں گے۔

-کاکاٹیوں کا ہیرا اور ریاست جموں کشمیر مدثر شاہ

1751 میں اس کے پوتے نے احمد شاہ ابدالی کو اپنی فوجی مدد کے بدلے میں کوہ نور ہیرا دے دیا، یوں کوہ نور ہیرا افغانوں کی ملکیت میں چلا گیا، احمد شاہ ابدالی کی وفات کے بعد کوہ نور اس کے بیٹے شاہ تیمور اور پھر اس کے بیٹے شاہ شجاع کی ملکیت میں چلا گیا، شاہ شجاع کو اس کے بھائی شاہ محمود نے بغاوت کر کے معزول کر دیا،

مہاراجہ پرتاب سنگھ : ترقی اور اصلاحات کے چالیس سال-مدثر شاہ

پرتاب سنگھ نے کوہالہ سے بارہمولا تک جہلم ویلی کارٹ روڈ کی تعمیر شروع کی جو 1889 میں مکمل ہوئی، بعد ازاں 1897 میں اس سڑک کو سرینگر تک پہنچا دیا گیا، یہ ریاست جموں کشمیر میں تعمیر ہونے والی پہلی سڑک تھی، اس کے بعد جموں اور سرینگر کے درمیان بانیہال کارٹ روڈ تعمیر کی گئی جو 1922 میں آمدورفت کے لئے کھولی گئی، ان سڑکوں کے علاوہ دیگر بیشمار سڑکیں بھی تعمیر کی گئیں جو سرینگر کو گلگت، لیہہ اور دیگر بہت سے علاقوں سے ملاتی تھیں، ان سڑکوں کی تعمیر سے عوام الناس کو بہت فائدہ پہنچا، اس امر کا اندازہ ایسے لگایا جا سکتا ہیکہ پرتاب سنگھ کے دور سے قبل ریاست جموں کشمیر میں بیل گاڑی/ٹانگہ حتٰکہ ہتھ ریڑھی تک موجود نہ تھی

ریاست جموں کشمیر کی عدلیہ اور نظام انصاف |مدثر شاہ

ایک متحرک، موثر اور آزاد عدلیہ ملکی انتظام و انصرام میں ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے، ریاست جموں کشمیر کی تشکیل کے بعد گلاب…

تاریخی مغالطے، پاکستان، قائد اعظم اور ریاست جموں کشمیر

ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب “قائد اعظم کیا تھے” پڑھ یہ یہ حقیقت تو آشکار ہوی کہ پاکستان میں تاریخی واقعات کو کس طرح…