آخری شب

اوائل شب کے تھکے مانندے
میرے بستی کے یہ نیم خواب لوگ
کچھ شرمندہ سے کھنڈرات میں بھٹکے لوگ
کسی آسیب زدہ عمارت میں تھک ہار کردبکے ہوئے
لمحہ در لمحہ مجھے آوازیں دے رہے ہیں
جاگتے رہو جاگتے رہو، خیا ل رکھنا خیال رکھنا
آج کی شب کئی بھیڑیے
خول انساں میں گھوم رہے ہیں
آج مت سونا
شب سیاہ و طویل کی، یہ ’’آخری شب ‘‘ ہے
یہ بے ہنگم اور مایوس آوازیں
ازل سے بستی کے مکینوں کو
ٹک کر سونے نہیں دیتی
یہ بے خواب ، غمگین، تھکے مانندے،پرہمت لوگ
خود کس مسافرِ سحر کہتے ہیں
اور مری بستی کے ڈرے، سہمے باشندے
ایک مدت سے، اسی ’’آخری شب ‘‘ کے منتظر ہیں
مگر یہ ’’آخری شب‘‘ بہت طویل ہو چکی
کئی صدیوں پر محیط یہ ’’آخری شب‘‘
کب ’’آخری شب‘‘ ہو گی؟؟؟

About Post Author

About the author

جواداحمد پارسؔ کا تعلق ریاست جموں کشمیر کی خوبصورت وادی نیلم سے ہے اور اسلام آباد پاکستان میں مقیم ہیں۔ آپ نے کراچی یونیورسٹی سے معاشیات اور ماس کمیونیکشنز میں ماسٹرز کر رکھا ہے اور آئی ٹی اور صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ قومی جمہوری آزادی اور خود مختار ریاست جموں کشمیر کے داعی ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *