میں افسردہ نظمیں لکھتا ہوں 

میں افسردہ نظمیں لکھتا ہوں
میں لوگوں کی عدم موجودگی میں ان سے بات کرتا ہوں
اور ان باتوں کو صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتا ہوں
میں وقت کے تصور منطق اور فلسفے میں کہیں کھو چکا ہوں
ایک گزرے ہوئے ایک شخص سے باتیں کرتا ہوں
جس کا ہاتھ سماج کے بے ہنگم انسانوں بھرے ریوڑ میں مجھ سے چھوٹ چکا ہے
جس سے میری روز مرہ کی باتیں اب محض یادیں بن چکی ہیں
جس کی عادت اب ایک واہمہ بن چکی ہے
اور ایک لمحہ جو بدقمستی میں بدل جاتا ہے
یا پھر سرمایہ حیات بن جاتا ہے
میں اسی ایک لمحے میں کہیں الجھا ہوا ہوں
بدقسمت یا خوش قسمت
وقت کی چال بدلنے میں ناکام ہو چکا ہوں
میں چاہتا ہوں کہ یہ تھم جائے، سکوت میں آ جائے
یہ تو مجھے ماضی میں دھکیلتے کہیں آگے ہی آگے بڑھ رہا ہے
لیکن کچھ دھندلے نقوش
ازل سے میرے ارد گرد منڈلا رہے ہیں
کسی مسلسل اور نامکمل الجھن کی طرح
کیا آسمان سلامت رہے گا
کیا ستارے ایسے ہی چمکتے رہیں گے
کیا کار جہاں بے مطلب ہے؟
اور پھر وہ ایک لمحہ جب وقت تھم جاتا ہے
وہ ایک لمحہ زندگی کا حاصل ہوتا ہے
جو چلے جاتے ہیں اور یکساں نہیں رہتے، وہ ختم ہو جاتے ہیں
اوہ تو یہ درد ہے، اور یہ بھی عارضی
نہیں یہ مستقل ہے، سب سے افسردہ، سب سے خوشگوار
لوگ نہیں جی سکتے ، انہیں جینا نہیں آتا
اور میں
اس ایک لمحہ میں جی رہا ہوں
جب میں تم سے پہلی دفعہ ملا تھا
خوش خوش افسردہ سا
افسردہ نظمیں لکھتا ہوا

About Post Author

About the author

جواد احمد پارس ایک کشمیری فلم ساز، کہانی نویس اور اسکرین رائٹر ہیں جنہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو فلم اور کہانی گوئی کے ذریعے اجاگر کیا ہے۔ وہ Fervid Productions کے شریک بانی اور کریئیٹو ہیڈ ہیں، جہاں وہ فلم سازی اور اسکرپٹ رائٹنگ کے مختلف پراجیکٹس کی قیادت کرتے ہیں۔

تقریباً ایک دہائی سے زیادہ عرصہ فلم انڈسٹری میں فعال رہنے کے بعد، پارس نے ایسی دستاویزی اور بیانیہ فلمیں تخلیق کی ہیں جو سماجی اور ثقافتی مسائل کو اجاگر کرتی ہیں۔ ان کے نمایاں کاموں میں کشمیری خواتین کی زندگیوں پر مبنی کہانیاں اور فلم "Mattu (The Rat Children)" شامل ہیں، جسے تنقیدی سطح پر پذیرائی ملی۔

ان کا مقصد فلم کے ذریعے سماج میں شعور بیدار کرنا اور ایسی کہانیاں سنانا ہے جو عموماً پسِ منظر میں رہ جاتی ہیں۔ بطور فلم ساز اور کہانی نویس، جواد احمد پارس اپنی نئی سوچ، حقیقت نگاری اور فنکارانہ بصیرت کے باعث پاکستانی اور بین الاقوامی سطح پر پہچانے جاتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *