بے ہنگم نظم

آج کی صبح بہت حساس ہے
جیسے کسی احساس میں کوہ گراں کے نیچے دبی ہوئی
چڑیوں کی چہچہاہٹ، اور مانوس لمحوں میں عجب بیزاری ہے
جیسے کسی شاہ کا تخت رات کے پچھلے پہر ہی اس سے چھیننے کی کوشش کی گئی ہو
اور اس کی محبوب ترین ملکہ کو اس شکستگی کا احساس بھی نہ ہو
چھت پر لٹکا پھنکا اور کھڑکی سے آتی ہوا
دونوں کے آوازیں عجب بے ہنگم اور سسکتی ہوئی لگ رہی ہیں
قبرستان کے دامن میں بسنے والی آخری قبر
اور ایک محیب سناٹا
سورج کی کرنوں میں مسرت کا کوئی بھی نشان نہیں ہے
شبنم ٹھنڈے یخ پانی کی مانند جسم کو چیر رہی ہے
دشت کے اک مسافر کا سراب بے کراں
ایک ناہنجار بنجارن کے عشق میں بھٹکتا ہوا کوئی مجنوں
جس کی آنکھوں کے سامنے موت ناچ رہی ہے
مگر اس کی بانسری سے اسی بنجارن کے لیے نکلتے ہوئے گیت
جو پچھلی شب ہی کسی اور کی بانہوں میں دلہن بن کر
شب عروسی کے سارے مزے لوٹ چکی۔

About Post Author

About the author

جواداحمد پارسؔ کا تعلق ریاست جموں کشمیر کی خوبصورت وادی نیلم سے ہے اور اسلام آباد پاکستان میں مقیم ہیں۔ آپ نے کراچی یونیورسٹی سے معاشیات اور ماس کمیونیکشنز میں ماسٹرز کر رکھا ہے اور آئی ٹی اور صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ قومی جمہوری آزادی اور خود مختار ریاست جموں کشمیر کے داعی ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *