آوارہ کتے

میری سربریدہ لاش
کچرے کے اس ڈھیر کے دوسری طرف پڑی ہے
کچھ گدھ اور کوے بارے بار اس طرف منڈلا رہے ہیں
غول کے غول
لیکن آوارہ کتوں کو دیکھ کر بیٹھنے سے ڈر رہے ہیں
آہ !یہ آوارہ کتے
بار بار میرے پاس آ کر مجھے سونگھ رہے ہیں
میرے زخموں پر اپنی زبان سے چاٹ رہے ہیں
شاید یہ سوچ کر کہ میں اٹھ بیٹھوں گا
میری ناک سے میری سانسوں کا اندازہ لگانے میں مگن ہیں
اور آپس میں سرگوشیاں کر رہے ہیں
ایک انسان ہے یہ
ہاں ایک انسان ہے
اسے شاید کسی انسان نے مار ڈالا ہے
ایک کوا! رینگتے رینگتے میرے قریب آنے کی کوشش کر رہا ہے
ایک کتا بار بار مرے بے جان جسم کے سامنے ڈھال بن رہا ہے
’’بھوک ، بھوک‘‘ کوا چیخا
’’ہم بھی بھوکے ہیں‘‘ کتا غرایا
لیکن ہم انسان نہیں
ہم بھوک مٹانے انسان کو گوشت نہیں کھا سکتے
ہم بھوک مٹانے ہم جنسوں کا گوشت نہیں کھاتے
یہ کتے یہاں پر کیوں جمع ہیں، آوارہ کتے
کچرے کے اس پار دو لوگ کھڑے ہیں
دو انسان
’’لاش پڑی ہے‘‘ کچرہ پھینکتے ایک نے دیکھ لیا ہے مجھ کو
کچرہ میرے منہ پر پڑا ہے
بھاگو بھاگو
کہیں الزام نہ ہم پر آئے
بھائوں بھائوں ، کتے بھونکے
جیسے ان کو بلا رہے تھے
پھر چند لمحے مری لاش کو گھورا
اور کچرے سے ڈھانپ دیا، دفنا دیا
آوارہ کتے

About Post Author

About the author

جواد احمد پارس ایک کشمیری فلم ساز، کہانی نویس اور اسکرین رائٹر ہیں جنہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو فلم اور کہانی گوئی کے ذریعے اجاگر کیا ہے۔ وہ Fervid Productions کے شریک بانی اور کریئیٹو ہیڈ ہیں، جہاں وہ فلم سازی اور اسکرپٹ رائٹنگ کے مختلف پراجیکٹس کی قیادت کرتے ہیں۔

تقریباً ایک دہائی سے زیادہ عرصہ فلم انڈسٹری میں فعال رہنے کے بعد، پارس نے ایسی دستاویزی اور بیانیہ فلمیں تخلیق کی ہیں جو سماجی اور ثقافتی مسائل کو اجاگر کرتی ہیں۔ ان کے نمایاں کاموں میں کشمیری خواتین کی زندگیوں پر مبنی کہانیاں اور فلم "Mattu (The Rat Children)" شامل ہیں، جسے تنقیدی سطح پر پذیرائی ملی۔

ان کا مقصد فلم کے ذریعے سماج میں شعور بیدار کرنا اور ایسی کہانیاں سنانا ہے جو عموماً پسِ منظر میں رہ جاتی ہیں۔ بطور فلم ساز اور کہانی نویس، جواد احمد پارس اپنی نئی سوچ، حقیقت نگاری اور فنکارانہ بصیرت کے باعث پاکستانی اور بین الاقوامی سطح پر پہچانے جاتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *