Soach Zar

سوچ زار ایک تاثر – مریم مجید ڈار کے افسانوی مجموعے پر اظہر مشتاق کا تبصرہ

حرافہ کا عنوان دیکھ کر ایسا لگتا ہےکہ یہ اس سماج کے ناپسندیدہ اور ناقابل قبول کردار کی کہانی ہے مگر مکمل افسانے کے مطالعے کے بعد غربت اور فاقہ زدہ گھر کی ایک ایسی کہانی ملتی ہے جس کے کردار سماج میں موجود ہیں مگر ان پر بات کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ حرافہ کا اختتام ڈرامائی اور سبق آموز ہے

JKPNA Flag,

فتح تو قریب ہے..مگر آپ کہاں کھڑے ہیں؟

آئیے اہلِ کشمیر کے حق خودارادیت کے لیے اکیس اکتوبر کے آزادی مارچ میں ہمارا ساتھ دیجیے. اپنی آنے والی نسلوں کو محفوظ بنوائیے. آپ الحاق پاکستان چاہتے ہوں یا الحاق ہندوستان خود مختاری چاہتے ہوں یا الحاق چین..اپنی مرضی کی مستند شناخت حاصل کرنے کے لیے ہمارے ہاتھ مضبوط کیجیے.

Ejaz Noumani Kahy Baghair

کہے بغیر- اعجاز نعمانی کے شعری مجموعے پر عبد البصیر تاجور کا ایک دلچسپ تبصرہ

شعروں میں ایک نئے نا شنیدہ بہ نعمانی برآمد ہوۓ. اس سے قبل ہم نعمانی صاحب کو پروفیسری, مہمان نوازی, بذلہ سنجی, بالوں کی سفیدی چھپانے کے لیے روزانہ شیو کی عادت, ٹھیٹ دیہاتی زبان بولنے میں بوڑھیوں کے لہجوں کی ایسی دلنواز نقل اتارنا کہ پوپلے منہ والی بوڑھیاں بھی شرما جائیں.. مگر مزے لیں وغیرہ وغیرہ کی وجہ سے جانتے تھے.

مزدوری از سعادت حسن منٹو

اُونچے مکان کی کھڑکی میں سے مل مل کا تھان پھڑپھڑاتا ہوا باہر نکلا، شعلے کی زبان نے ہولے ہولے اسے چاٹا۔ سڑک تک پہنچا تو راکھ کا ڈھیر تھا۔ “پوں پوں، پوں پوں” موٹر کے ہارن کی آواز کے ساتھ دو عورتوں کی چیخیں بھی تھیں۔

منٹو اور کرشن چندر کا کشمیر

آج کشمیر کے بنیادی حوالے دو ہیں: ایک اس کا فطری حُسن اور دوسرے اس کی سیاسی صورتِ حال۔ کشمیر کے ان دو عاشقوں میں سے کرشن چندر کشمیر کے فطری حسن کے متوالے ہیں تو سعادت حسن منٹو کے کشمیر کے حوالے سے دو مشہور افسانے اس کے سیاسی پس منظر کے بارے میں ہیں۔

ٹیٹوال کا کتّا – از سعادت حسن منٹو

ہوائی جہازوں کا کوئی خطرہ نہیں تھا ۔ تو پین ان کے پاس نہ ان کے پاس ‘ اس لئے دونوں طرف بے خوف و خطر آگ جلائی جاتی تھی ۔ ان سے دھوئیں اٹھتے اور ہواؤں میں گھل مل جاتے ۔ رات کو چونکہ بالکل خاموشی ہوتی تھی ۔

تو مر گیا آخر؟؟ 

”منٹو صاحب بڑے افسانہ نگار تھے۔“ میں پریشان تو بالکل نہیں تھا۔۔ نہیں قطعا نہیں مگر ۔۔ وہ مجھے پریشان سمجھ رہا تھا۔ ”اچھا“…

خواب نگر کی آنکھیں۔

وہ خواب نگر کی آنکھیں۔ کتنی مدت بعد میرا ان سے سامنا ہوا تھا۔ وہ صحرائی حسینہ جس کے چہرے پر صحرا کے کالے…

لہو لہوکشن گنگا

شام نے اپنے سائے گہرے کر لیے تھے اور سورج کو اپنے پروں میں سمیٹ رہی تھی۔ سورج بھی اس کے آغوش میں خود…

 کراچی میں کشمیر

   لاہور سے کراچی قسط اول اگست کی وہ تپتی دوپہریں جب وطن عزیر کی ٹھنڈی ٹھندی چھاؤں اور ہلکی پھلکی صباء اپنی آغوش…