یکجہتی کشمیر فقط سرکاری ڈرامہ February 5, 2020 پاکستان میں اب کشمیر اور اس سے جڑے ہوئے کسی مسئلے کا نام یا تو فیشن کے طور پر لیا جاتا ہے یا پھر حب الوطنی اور مزہبی جذبات سے مجبور ہو کر وگرنہ پاکستانیوں کو اس مسئلے سے سرے سے کوئی لگاؤ ہے ہی نہیں، شاید یہی وجہ تھی کہ عمران خان نے بھی دو جمعے بے وضو یکجہتی کرنے کے بعد توبہ کر لی تھی۔ Share this: Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook Click to share on X (Opens in new window) X Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp Click to share on Telegram (Opens in new window) Telegram Click to print (Opens in new window) Print Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
قدرتی سانحے اور ہم January 17, 2020 بدترین انتظامی صلاحیتیں، سیاسی عدم استحکام، جمود کا شکار عقائد، قدرتی رویوں پر انحصار، زندگی کی بے لچک سچائیوں سے انحراف نے ہمیں سطحی انسان بھی نہہیں رہنے دیا ہے۔ ہم نے ہر وہ کام کیا ہے یا کرنے دیا ہے جو ہماری مجموعی تباہی و بربادی کی راہیں ہموار کرتا ہے۔ Share this: Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook Click to share on X (Opens in new window) X Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp Click to share on Telegram (Opens in new window) Telegram Click to print (Opens in new window) Print Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
ہندوستان کے خلاف ناگاز (لینڈ) مزاحمت کی تاریخ November 2, 2019 14 اگست کو یہ ناگالام قومی سوشلسٹ کونسل ہی نہیں تھی جس نے ناگا لینڈ کا ایک الگ پرچم لہرایا جو اب ناگاز کا مستقل پرچم بن چکا ہے بلکہ اسے دیگر باغی گروہوں نے بھی لہرایا اور ان شہریون نے بھی اپنے گھروں پر لہرایا جنہیں اکثر پولیس پرچم گرانے کے جرم میں پکڑ کر لے جاتی تھی۔ Share this: Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook Click to share on X (Opens in new window) X Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp Click to share on Telegram (Opens in new window) Telegram Click to print (Opens in new window) Print Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
پانی سر سے گزر چکا ہے: عثمان افسر October 31, 2019 پھر مختلف اوقات میں مختلف مرحلوں پہ تقسیم کے منصوبہ پہ عمل دونوں طرف سے جاری رہا ماضی قریب میں چناب فارمولے کا آنا پھر جموں کشمیر کی سرزمین پہ ہی پاکستان کی طرف سے باڑ لگانا ہندوستان کا خاموش رہنا سب ایک ہی کہانی کے حصے ہیں جنہیں سالوں پہلے ترتیب دیا گیا جموں کشمیر کی عوام بہرحال سمجھنے سے قاصر رہی ۔ Share this: Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook Click to share on X (Opens in new window) X Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp Click to share on Telegram (Opens in new window) Telegram Click to print (Opens in new window) Print Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
کرفیو کے 85 دن اور 5 تقاریر – رفعت وانی October 28, 2019 خان صاحب اکتیس اکتوبر کو باقائدہ جموں کشمیر کی تقسیم عمل میں لائی جائے گی ۔ گجرات قتل عام کا ماسٹر مائنڈ گورنر کا حلف اُٹھا لے گا اُس کے بعد وادی والے بھی لڑنے کی پوزیشن میں نہیں رہیں گے کیونکہ انڈیا کی ایک ارب پنتیس کروڑ عوام بھی انڈین آرمی کے ساتھ شامل ہی سمجھیں۔ Share this: Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook Click to share on X (Opens in new window) X Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp Click to share on Telegram (Opens in new window) Telegram Click to print (Opens in new window) Print Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
22 اور 27 اکتوبر کے درمیاں اٹکی ریاستی تاریخ October 27, 2019 ستائیں اکتوبر 1947 کو بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان کو بھیجے گئے ایک ٹیلی گرام میں لکھا “میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس ہنگامی صورتحال میں کشمیری امداد کا سوال بھارت کے ریاست پر اثر انداز کرنے کے کسی بھی طریقے سے ترتیب نہیں کیا گیا ہے. ہمارے نقطہ نظر جس نے ہم بار بار عوام کو بتایا ہے یہ ہے کہ کسی بھی متضاد علاقے یا ریاست میں رسائی کا سوال پر وہاں کے لوگوں کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق فیصلہ کیا جائے اور ہم اس نظریے پر عمل کریں “ Share this: Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook Click to share on X (Opens in new window) X Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp Click to share on Telegram (Opens in new window) Telegram Click to print (Opens in new window) Print Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
21توپوں کی سلامی تو بنتی ہے October 26, 2019 محترم فاروق حیدر خان کی طرف سے نامزد بدعنوان آفیسران تین سال سے نہ صرف بھرپور راحت میں ہیں بلکہ ترقیابی سے بھی فیض یاب ہوئے۔سینکڑوں نہ سہی درجنوں مثالوں میں ایک مثال ڈپٹی وزیر اعظم راجہ امجد پرویز کی ہے جو ان ہی تین سال میں نامزد بدعنوان آفیسران کی فہرست میں سے نکال کر پرنسپل سیکرٹری کے عہدے پر فائز کیے گئے۔ Share this: Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook Click to share on X (Opens in new window) X Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp Click to share on Telegram (Opens in new window) Telegram Click to print (Opens in new window) Print Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
کیا ہری سنگھ بزدل تھا؟ October 26, 2019 قبائلیوں کی حملے کے وقت ہری سنگھ کی کل دس ہزار کی فوج تھی جس کے پاس وسائل کی کمی تھی جبکہ قبائلیوں کی پست پناہی پاکستان کی فوج، سابق آرمی سروسز، کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ ہندوستان اور انگریز بھی شامل تھے ان کی یہ دلیل سرحدی گاندھی کے حوالے سے رد بھی نہیں کی جا سکتی ہے کیونکہ باچا خان گاندھی کے قریبی دوست تھے ہو سکتا ہے ریاست جموں کشمیر ہتھیانے کے چکر میں انہوں نے کوئی چال چلی ہو ۔ Share this: Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook Click to share on X (Opens in new window) X Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp Click to share on Telegram (Opens in new window) Telegram Click to print (Opens in new window) Print Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
یزید چوک مظفرآباد بمقابلہ لال چوک سری نگر October 24, 2019 میرے دائیں طرف والے بیڈ پر ان کے جسم نے جھرجھری لی. میں نے جس شخص کو ڈاکٹر سمجھ کر اس قریب مرگ شخص کو دیکھنے کا کہا تو پتا چلا وہ بھی مظاہرین میں سے ہے اور نیم زخمی ہونے کی وجہ سے لایا گیا ہے. ڈاکٹر اور نرسز ڈی سی یا پولیس کی اجازت کے بارے میں بحث کرتے رہے. اس قریب مرگ شخص کے وارث کے لیے آوازیں دیتے رہے. اور دو منٹ بعد بلا اجازت ہی جب کیس دیکھنے پر اتفاق ہوا Share this: Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook Click to share on X (Opens in new window) X Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp Click to share on Telegram (Opens in new window) Telegram Click to print (Opens in new window) Print Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
لبریشن فرنٹ کا دھرنا ختم ہو گیا ، اثرات دیر پا ہوں گے October 19, 2019 ڈاکٹر توقیر گیلانی اپنی پوری فیملی کے ساتھ مارچ اور دھرنے میں موجود رہے۔ ان کے علاوہ بھی کئی لوگ اپنے خاندان بھر کو لے کر دھرنے میں پہنچے ہوئے تھے جہاں رات کو سونے کے لیے ننگی دریاں، تکیوں کے جگہ برتن اور چھت کی جگہ کھلا آسمان یا ٹینٹ تھا جس میں دونوں جانب سے جہلم کی یخ بستہ ہوائیں رات کے پچھلے پہر داخل ہوتی تھی۔ دھرنے میں موجود شرکاءہردم پرجوش تھے Share this: Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook Click to share on X (Opens in new window) X Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp Click to share on Telegram (Opens in new window) Telegram Click to print (Opens in new window) Print Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest