اب رائے شماری نہیں خود مختاری

ریاست جموں کشمیر کی قومی خود مختاری سے قبل ریاست کے اندر کسی قسم کی رائے شماری اول تو ناممکن ہے اور اگر ممکن بنا بھی لی جاتی ہے تو دو غاصب قوتوں کے ہوتے ہوئے صحیح نتائج حاصل کرنا ناممکن ہے

نہتے لڑکوں سے خوف زدہ حکمران

بھارت اپنے زیر قبضہ علاقوں میں جو ظلم کر رہا ہے اس کی وجہ آزادی کا مطالبہ ہے جس کی سزا بھارت کے نزدیک گرفتاریاں اور تشدد ہے ۔۔۔آپ کے نزدیک بھی اگر آزادی کا مطالبہ جرم ہے تو پھر فرق آپ خود کریں ہم کہیں گے تو گستاخی ہو گی۔

آزادی مارچ میں گئے ایک غیر سیاسی نوجوان کے تاثرات

آزادی مارچ کے دوران تمام ساتھی جو ایکدوسرے کو جانتے تک نہیں تھے لیکن ایکدوسرے کا اتنا خیال رکھ رہے تھے کہ جیسے یہ ایک ہی گھر کے لوگ ہوں۔ انکا ڈسپلن اور انکی انسانیت مجھے پسند آئی۔ کچھ شرپسندوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا تو انہوں نے سب کو کہا کہ یہ ہمارے ہی اپنے لوگ ہیں, یہ آرڈر کے غلام ہیں, ان پر پتھر مت برساؤ۔ اگر پتھر مارنے ہیں تو IG کو مارو جس نے اسلام آباد میں بیٹھ کر انکو حکم صادر کیا ہے۔

منٹو اور کرشن چندر کا کشمیر

آج کشمیر کے بنیادی حوالے دو ہیں: ایک اس کا فطری حُسن اور دوسرے اس کی سیاسی صورتِ حال۔ کشمیر کے ان دو عاشقوں میں سے کرشن چندر کشمیر کے فطری حسن کے متوالے ہیں تو سعادت حسن منٹو کے کشمیر کے حوالے سے دو مشہور افسانے اس کے سیاسی پس منظر کے بارے میں ہیں۔

کیا پاکستان بھی کشمیریوں کی ہمدردیاں کھو رہا ہے؟

ٓآپ کوہالہ سے پار ہوں تو ہر چہرے پر تنوع اور سنجیدگی ہے۔ جونہی لائن آف کنٹرول کی جانب بڑھتے جائیں گے یہ سنجیدگی پریشانی میں تبدیلی ہوتی جائے گی ۔ میر پور سے لے کر تاﺅ بٹ تک لوگ ایک ہی سول کر رہے ہیں ۔کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے ؟ مگر ظاہر ہے ان سوالات کے جواب فی الحال کسی کے پاس بھی نہیں ہیں۔

امریکی صدر کا کشمیریوں کے متعلق بیان اور کنفیوزن

امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس کے دوران واشگاف الفاظ میں کہا کہ “کشمیری میں لوکھوں لوگ بستے ہیں جو کسی…

چلئیے ۔ شملہ ہی چلیں

دوطرفہ باہمی مشاورت سے مناسب وقت پر دونوں ممالک کے سربراہان اور نمائندگان کی ملاقات میں دیرپا امن، دوطرفہ تعلقات میں معمول، جنگی قیدیوں (فوجی و سول) کے تبادلہ، تنازعہ “ جموں کشمیر کے حتمی تصفیہ” اور سفارتی تعلقات کی بحالی کے طریقہ کار پر مذاکرات کریں گے۔

سلامتی کونسل اجلاس کا جشن کب تک؟

پاکستان کا خیال ہے کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں آج بھی اس مسئلے کے حل میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ مگر کیا کیا جائے کہ کشمیر کے بارے میں سلامتی کونسل کی تمام قراردادیں اقوامِ متحدہ چارٹر کے باب ششم کے تحت منظور کی گئی ہیں۔

مسئلہ کشمیر اور اقوام متحدہ کا کردار

جنوری 1951؁ء میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کو ممکن بنانے کے لیے دولت مشترکہ کے وزرائے اعظم نے ہرممکن سفارتی کوشش کی کہ وہ دونوں ملک فوجوں کو غیر مسلح کرنے اور انخلا پر رضامند ہو جائیں۔ اس ضمن میں انہوں نے دونوں ملکوں کے سامنے درج ذیل تجاویز پیش کیں کہ وہ ان میں سے کسی ایک کو تسلیم کر لیں۔

آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے بعد اب مستقبل کیا ہو گا؟

ریاست جموں کشمیر کا ریاستی تشخص ختم کرنے کا بھارتی اقدام اگر سپریم کورٹ میں چیلنج ہوتا ہے تو یقینا بھارتی حکومت یہ مقدمہ ہار جائے گی اور بھارتی زیرانتظام جموں کشمیر اپنی جولائی 2019 کی پوزیشن پر واپس آ جائے گی