پاکستان کا گلگت بلتستان اور کشمیر پر تضاد: وسعت اللہ خان

اگرچہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے جغرافیائی حجم میں ایک اور آٹھ کا فرق ہے اور متنازعہ ہونے کے سبب دونوں علاقے پاکستان کے آئینی وفاق کا تکنیکی اعتبار سے باضابطہ حصہ نہیں بن سکتے لیکن یکساں متنازعہ حیثیت ہونے کے باوجود کشمیر اور گلگت بلتستان سے ایک جیسا آئینی ،قانونی ، انتظامی و سیاسی برتاؤ جانے کیوں ضروری نہیں سمجھا گیا۔

مسئلہ کشمیر میں تیسرا انتخاب: لبنی ہارون

“خودمختار کشمیر” ریاست جموں و کشمیر کے دونوں حصوں میں ایک ابھرتے ہوئے رحجان کی صورت اختیار کر گیا ہے جو مسئلہ کشمیر کے حل میں تعطل سے نمایاں ہوا ہے، اس کو مجموعی طور پر تھرڈ آپشن کہا جاتا ہے.

مسئلہ کشمیر، ہیرو ازم اور فلسفہ جہاد

اب ہمیں اس بات کا فیصلہ کرنا ہو گا کہ آخر ہم چاہتے کیا ہیں، کشمیریوں کی نسل کشی یا پھر مسئلہ کشمیر کا پرامن طریقے سے حل، اگر ہم جماعت اسلامی کے جہاد والے فلسفے پر عمل کرتے رہے تو بعید نہیں کہ آمدہ دس سے پندرہ سال میں ویلی کے اندر صرف عورتیں بچ جائیں گی اور سب مرد بھارتی فوج کی گولی کا نشانہ بن جائیں گے۔

پشتنی باشندگی قوانین اور گلگت بلتستان

سٹیٹ اسبجیکٹ رولز کا نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے جہاںگلگت بلتستان میں عوام روز اول سے مقامی وسائل سے محروم رہے وہیںغیر ریاستی افراد کو جائیدادوں کی الاٹمنٹ بھی کی گئی ۔

منجمد سوچيں نسلوں کی دُشمن؛ رضوان اشرف

بڑے دماغ جو تجزيہ کرتے ہيں اُنکی عملًا اہميت صديوں بعد بھی ويسے ہی ہوتی ہے جيسے کہ آج کا تجزيہ ہو۔ اسکی ايک وجہ استحصال کے بنيادی اصولوں کا تبديل نہ ہونا بلکہ محض شکليں بدلنا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رول موجودہونے کا دعویٰ کردیا۔

جمعہ کے روز ہفتہ وار نیوز بریفنگ دیتے ہوئے ترجمان نے کہا ہے کہ بھارت گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کو بنیاد بناتے ہوئے وہاں ترقیاتی کاموں کو یرغمال بنانا چاہتا ہے جسے ترجمان نے ناقابل قبول قرار دیا ۔ انہوں نے مزید کہا ہے بھارت کی مذکرات سے مسلسل انکار کی وجہ سے مسئلہ کشمیر پر کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔

-کاکاٹیوں کا ہیرا اور ریاست جموں کشمیر مدثر شاہ

1751 میں اس کے پوتے نے احمد شاہ ابدالی کو اپنی فوجی مدد کے بدلے میں کوہ نور ہیرا دے دیا، یوں کوہ نور ہیرا افغانوں کی ملکیت میں چلا گیا، احمد شاہ ابدالی کی وفات کے بعد کوہ نور اس کے بیٹے شاہ تیمور اور پھر اس کے بیٹے شاہ شجاع کی ملکیت میں چلا گیا، شاہ شجاع کو اس کے بھائی شاہ محمود نے بغاوت کر کے معزول کر دیا،

مہاراجہ پرتاب سنگھ : ترقی اور اصلاحات کے چالیس سال-مدثر شاہ

پرتاب سنگھ نے کوہالہ سے بارہمولا تک جہلم ویلی کارٹ روڈ کی تعمیر شروع کی جو 1889 میں مکمل ہوئی، بعد ازاں 1897 میں اس سڑک کو سرینگر تک پہنچا دیا گیا، یہ ریاست جموں کشمیر میں تعمیر ہونے والی پہلی سڑک تھی، اس کے بعد جموں اور سرینگر کے درمیان بانیہال کارٹ روڈ تعمیر کی گئی جو 1922 میں آمدورفت کے لئے کھولی گئی، ان سڑکوں کے علاوہ دیگر بیشمار سڑکیں بھی تعمیر کی گئیں جو سرینگر کو گلگت، لیہہ اور دیگر بہت سے علاقوں سے ملاتی تھیں، ان سڑکوں کی تعمیر سے عوام الناس کو بہت فائدہ پہنچا، اس امر کا اندازہ ایسے لگایا جا سکتا ہیکہ پرتاب سنگھ کے دور سے قبل ریاست جموں کشمیر میں بیل گاڑی/ٹانگہ حتٰکہ ہتھ ریڑھی تک موجود نہ تھی

ریاست جموں کشمیر کی عدلیہ اور نظام انصاف |مدثر شاہ

ایک متحرک، موثر اور آزاد عدلیہ ملکی انتظام و انصرام میں ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے، ریاست جموں کشمیر کی تشکیل کے بعد گلاب…

خول اترا تمہارا تو

2014 میں ایک طلباء تنظیم نے روایتی قوم پرست بیانیہ میں موجود خامیوں اور تضادات کی نشاندہی کرتے ہوئے بھارت اور پاکستان کے سرکاری بیانیوں کے چربہ کو رد کرتے ہوئے ایک مقامی جوابی بیانیہ کی تشکیل پر کام شروع کیا جو مکمل طور پر ایک “ایکیڈیمک” طرز پر آگے بڑھ رہا تھا کہ اچانک کچھ لوگ ایک مکمل اور خالص علمی و تاریخی بحث میں خاندانوں اور قبیلوں کی لڑائی لڑنا شروع ہو گئے،